Shaikh Zahuruddin Hatim

شیخ ظہور الدین حاتم

شیخ ظہور الدین حاتم کی غزل

    ہستی کی قید سے اے دل آزاد ہوئیے

    ہستی کی قید سے اے دل آزاد ہوئیے صحرا میں جا کے خوب سا ہنس ہنس کے روئیے دونوں جہاں کا شادی و غم دل سے بھول کر پاؤں دراز کر کے فراغت سے سوئیے اے چشم از برائے خدا گر مدد کرے اعمال نامہ اپنا تو رو رو کے دھویئے حاتمؔ کسی سے اپنی مصیبت کو تو نہ کہہ کیا فائدہ جو اپنا بھرم مفت کھوئیے

    مزید پڑھیے

    عاشق کا جہاں میں گھر نہ دیکھا

    عاشق کا جہاں میں گھر نہ دیکھا ایسا کوئی در بدر نہ دیکھا جیسا کہ اڑے ہے طائر دل ایسا کوئی تیز پر نہ دیکھا خوبان جہاں ہوں جس سے تسخیر ایسا کوئی ہم ہنر نہ دیکھا ٹوٹے دل کو بنا دکھاوے ایسا کوئی کاری گر نہ دیکھا اس تیغ نگہ سے ہو مقابل ایسا کوئی بے جگر نہ دیکھا جاری ہیں ہمیشہ چشمۂ ...

    مزید پڑھیے

    آگے کیا تم سا جہاں میں کوئی محبوب نہ تھا

    آگے کیا تم سا جہاں میں کوئی محبوب نہ تھا کیا تمہیں خوب بنے اور کوئی خوب نہ تھا ان دنوں ہم سے جو وحشی کی طرح بھڑکو ہو یہ تو ملنے کا تمہارے کبھو اسلوب نہ تھا نامہ بر دل کی تسلی کے لیے بھیجوں ہوں ورنہ احوال مرا قابل مکتوب نہ تھا طاقت اب طاق ہوئی صبر و شکیبائی کی کب تلک صبر کرے دل ...

    مزید پڑھیے

    بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ

    بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ آن کر پھر کے جلایا تو مجھے آن کے بیچ ایک دن ہاتھ لگایا تھا ترے دامن کو اب تلک سر ہے خجالت سے گریبان کے بیچ تو نے دیکھا نہ کبھی پیار کی نظروں سے مجھے جی نکل جائے گا میرا اسی ارمان کے بیچ آج عاشق کے تئیں کیوں نہ کہے تو در در واسطہ یہ ہے کہ موتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں

    جب سے تمہاری آنکھیں عالم کو بھائیاں ہیں تب سے جہاں میں تم نے دھومیں مچائیاں ہیں جور و جفا و محنت مہر و وفا و الفت تم کیوں بڑھائیاں ہیں اور کیوں گھٹائیاں ہیں مل مل کے روٹھ جانا اور روٹھ روٹھ ملنا یہ کیا خرابیاں ہیں کیا جگ ہنسائیاں ہیں ٹک ٹک سرک سرک کر آ بیٹھنا بغل میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    عاشقوں کے سیر کرنے کا جہاں ہی اور ہے

    عاشقوں کے سیر کرنے کا جہاں ہی اور ہے ان کے عالم کا زمین و آسماں ہی اور ہے پوچھتا پھرتا ہے کیا ہر ایک سے ان کا سراغ لا مکاں ہیں ان کو رہنے کا مکاں ہی اور ہے آزمائش ان کی وضعوں کا تجھے ہے گا ضرر یہ وہ فرقہ ہے کہ ان کا امتحاں ہی اور ہے کیا خریدے گا خراب آباد کے بازار میں درد کی ہو جنس ...

    مزید پڑھیے

    عشق کے شہر کی کچھ آب و ہوا اور ہی ہے

    عشق کے شہر کی کچھ آب و ہوا اور ہی ہے اس کے صحرا کو جو دیکھا تو فضا اور ہی ہے تجھ سے کچھ کام نہیں دور ہو آگے سے نسیم وا کرے غنچۂ دل کو وہ صبا اور ہی ہے نبض پر میری عبث ہاتھ تو رکھتا ہے طبیب یہ مرض اور ہے اور اس کی دوا اور ہی ہے گل تو گلشن میں ہزاروں نظر آئے لیکن اس کے چہرے کو جو دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    ابر میں یاد یار آوے ہے

    ابر میں یاد یار آوے ہے گریہ بے اختیار آوے ہے باغ سے گل عذار آوے ہے بوئے گل پر سوار آوے ہے اے خزاں بھاگ جا چمن سے شتاب ورنہ فوج بہار آوے ہے اے صبا کس طرف کو گزری تھی تجھ سے بوئے نگار آوے ہے مجھ ہوا خواہ سے گریز سو کیوں تجھ کو کیا مجھ سے عار آوے ہے سن کے کہنے لگے کسی کے کوئی کاہے ...

    مزید پڑھیے

    رکھتا ہوں میں حق پر نظر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو

    رکھتا ہوں میں حق پر نظر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو ہشیار ہوں یا بے خبر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو قسمت مقدر بوجھ کر غفلت میں آ کر حرص سے پھر کیا ہے پھرنا در بدر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو جز معصیت کے کچھ نہیں ہے کام مجھ عاصی کے تئیں ہر روز و ہر شام و سحر کوئی کچھ کہو کوئی کچھ کہو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے

    باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے غنچۂ دل مرا بکستا ہے ارے بے مہر مجھ کو روتا چھوڑ کہاں جاتا ہے مینہ برستا ہے تیرے ماروں ہوؤں کی صورت دیکھ میرا مرنے کو جی ترستا ہے تیری تروار سے کوئی نہ بچا اب کمر کس اوپر تو کستا ہے کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے میری فریاد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5