دن وصل کے رنج شب غم بھول گئے ہیں
دن وصل کے رنج شب غم بھول گئے ہیں یہ خوش ہیں کہ اپنے تئیں ہم بھول گئے ہیں ان وعدہ فروشوں سے کیا کیجیے شکوہ کھا کھا کے مرے سر کی قسم بھول گئے ہیں جس دن سے گئے اپنی خبر تک نہیں بھیجی شاید ہمیں یارانۂ عدم بھول گئے ہیں کاٹی ہیں مہینوں ہی تری یاد میں راتیں غفلت میں تجھے گر کوئی دم ...