Shahzad Ahmad

شہزاد احمد

نئی اردو غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں

One of the leading poets of new Urdu ghazal.

شہزاد احمد کی نظم

    درختوں پر کوئی پتا نہیں تھا

    درختوں پر کوئی پتا نہیں تھا گزرتے راستے خاموش تھے اڑتے پرندے رات کا آسیب لگتے تھے جہاں تک بھی نظر جاتی تھی ان لوگوں کی قبریں تھیں جو پیدا ہی نہ ہو پائے ستارے تھے مگر وہ آسمانوں پر ہویدا ہی نہ ہو پائے خبر یہ تھی اس مٹی میں سبزہ لہلہائے گا یہاں وہ وقت آئے گا کہ ہر سو رنگ ہوں گے پھول ...

    مزید پڑھیے

    ان کہی

    سانولی! تو مرے پہلو میں ہے لیکن تری پیاسی آنکھیں کبھی دیوار کو تکتی ہیں کبھی جانب در دیکھتی ہیں مجھ سے اس طرح گریزاں جیسے انہیں مجھ سے نہیں دیوار سے کچھ کہنا ہے یا یہ پنچھی ہیں جنہیں ایک ہی پرواز میں اڑ جانا ہے ہاتھ نہیں آنا ہے (اے مری سانولی! ان آنکھوں کے دونوں پنچھی گر اڑے بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    دل آرام

    زمانے کے پاؤں میں زنجیر ڈالو کہ یہ چھپکلی کی طرح رینگتا وقت امیدوں کے شہ پر کو چھونے لگا ہے اسے روک بھی دو کہ یہ فیل پا اب ہمارے سبک جسم کو روند دے گا ہمارے تخیل کے پر توڑ دے گا یہ سیل رواں آرزو کے گھروندے کی بنیاد کو چاٹ لے گا اگر دوڑتا وقت میری طرح ایک مرکز پہ کچھ دیر ٹھہرا ...

    مزید پڑھیے

    ایک درخت

    اس نے اپنے دل کی کالی دھرتی پر ایک درخت اگایا تھا پہلے اس پر امیدوں کے پھل آتے تھے اس کی شاخیں خوشبوؤں کے پتوں سے بھر جاتی تھیں یادوں کی خوشبوئیں فضا میں بکھر جاتی تھیں کبھی کبھی راتوں کی مایوسی کی شبنم سارے درخت کو دھو دیتی تھی پھولوں میں نوکیلے کانٹے بو دیتی تھی پھر بھی میں ...

    مزید پڑھیے

    میں اور تو

    میں وہ جھوٹا ہوں کہ اپنی شاعری میں آنسوؤں کا ذکر کرتا ہوں مگر روتا نہیں آسماں ٹوٹے زمیں کانپے خدائی مر مٹے مجھ کو دکھ ہوتا ہے میں وہ پتھر ہوں کہ جس میں کوئی چنگاری نہیں وہ پیمبر ہوں کہ جس کے دل میں بیداری نہیں تم مجھے اتنی حقارت سے نہ دیکھو عین ممکن ہے کہ تم میرا ہیولیٰ دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    یہ تمنا عبث

    اسے دیکھنے کی تمنا عبث وہ کیسا لگے گا ابھی دھندلی دھندلی لکیروں نے چہرہ بنایا نہیں ابھی اس کی آواز بھی ریشہ ریشہ ہے اس نے گزرتی ہوئی ساعتوں کو بتایا نہیں ابھی برف کی تہ کے نیچے ہیں آنکھوں کی جھیلیں ابھی جھیل کی مچھلیاں زرد سورج کی کرنوں سے محروم ہیں مگر کیا خبر وہ ازل سے ابد تک ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ مچولی

    وہ اک ننھی سی لڑکی برف کے گالے سے نازک تر ہوا میں جھولتی شاخوں کی خوشبو اس کا لہجہ تھا چمکتے پانیوں جیسی سبک رو اس کی باتیں تھیں وہ اڑتی تتلیوں کے رنگ پہنے جب مجھے تکتی تو آنکھیں میچ لیتی مگر اب وہ نہیں ہے برف کے گالے بھی غائب ہیں ہوا میں جھولتی شاخوں میں لہجہ ہے نہ خوشبو ہے چمکتے ...

    مزید پڑھیے

    بے شمار آنکھیں

    آسماں کے چہرے پر بے شمار آنکھیں ہیں بے شمار آنکھوں میں بے حساب منظر ہیں منظروں کے آئینے اپنے اپنے چہروں کو خود ہی دیکھ سکتے ہیں خود ہی جان سکتے ہیں اپنی بے نوائی کو وسعتوں کی چادر پر سلوٹیں بہت سی ہیں اس خموش دنیا میں آہٹیں بہت سی ہیں آتی جاتی لہروں کا ازدحام رہتا ہے وقت ایک خنجر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2