Shahzad Ahmad

شہزاد احمد

نئی اردو غزل کے اہم ترین پاکستانی شاعروں میں نمایاں

One of the leading poets of new Urdu ghazal.

شہزاد احمد کے تمام مواد

41 غزل (Ghazal)

    عقل ہر بات پہ حیراں ہے اسے کیا کہیے

    عقل ہر بات پہ حیراں ہے اسے کیا کہیے دل بہر حال پریشاں ہے اسے کیا کہیے بلبلیں طاقت گفتار سے محروم ہوئیں اب یہ آئین گلستاں ہے اسے کیا کہیے لوگ کہتے ہیں کہ گلشن میں بہار آئی ہے بوئے گل پھر بھی پریشاں ہے اسے کیا کہیے رہنما دور بہت دور نکل آئے ہیں قافلہ راہ میں حیراں ہے اسے کیا ...

    مزید پڑھیے

    دل سے یہ کہہ رہا ہوں ذرا اور دیکھ لے

    دل سے یہ کہہ رہا ہوں ذرا اور دیکھ لے سو بار اس کو دیکھ چکا اور دیکھ لے اس کو خبر ہوئی تو بدل جائے گا وہ رنگ احساس تک نہ اس کو دلا اور دیکھ لے صحرا میں کیا دھرا ہے ابھی شہر کو نہ چھوڑ کچھ روز دوستوں کی وفا اور دیکھ لے موسم کا اعتبار نہیں بادباں نہ کھول کچھ دیر ساحلوں کی ہوا اور ...

    مزید پڑھیے

    کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی

    کہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئی درخت کاٹ گیا ہے ہرے بھرے کوئی عجیب رت ہے زباں ذائقے سے ہے محروم تمام شہر ہی چپ ہو تو کیا کرے کوئی ہمارے شہر میں ہے وہ گریز کا عالم چراغ بھی نہ جلائے چراغ سے کوئی یہ زندگی ہے سفر منجمد سمندر کا وہیں پہ شق ہو زمیں جس جگہ رکے کوئی پلٹ کر آ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے

    اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے خاک سے بیٹھ گئے خاک اڑانے والے یہ الگ بات میسر لب گویا نہ ہوا دل میں وہ دھوم کہ سنتے ہیں زمانے والے کسی منزل کی طرف کوئی قدم اٹھ نہ سکا اپنے ہی پاؤں کی زنجیر تھے جانے والے دل سا وحشی کبھی قابو میں نہ آیا یارو ہار کر بیٹھ گئے جال بچھانے والے دن ...

    مزید پڑھیے

    یوں خاک کی مانند نہ راہوں پہ بکھر جا

    یوں خاک کی مانند نہ راہوں پہ بکھر جا کرنوں کی طرح جھیل کے سینے میں اتر جا مت بھول کہ اب بھی ہے تری گھات میں صیاد سنتا ہے کوئی پاؤں کی آواز ٹھہر جا مت دیکھ تمنا کی طرف آنکھ اٹھا کر اندھوں کی طرح نور کے دریا سے گزر جا منزل کی طلب اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور رات مسافر سے یہ کہتی ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

18 نظم (Nazm)

    کرسمس کا درخت

    میں بھی ہوں گویا کرسمس کا درخت میرا رشتہ بھی زمیں سے آسماں سے اور ہوا سے کٹ چکا باغ چھوٹا کھیتیاں چھوٹیں میں گھر کے مرکزی کمرے میں آ کر ڈٹ چکا میرے بچوں نے سجایا ہے مجھے روشنی کے ننھے ننھے بلب ٹانکے ہیں مری بانہوں کے ساتھ میری شاخوں میں ہیں تحفے مختلف رنگوں کے کاغذ اور سنہرے ٹیپ ...

    مزید پڑھیے

    سوتا جاگتا سایہ

    تو چلی جا کہ مجھے تیری ضرورت بھی نہیں میں شب و روز کی مٹی سے دوبارہ بھی جنم لے لوں گا میں جو زندوں میں ہوں زندوں میں نہیں میں پرندوں میں درندوں میں نہیں فقط انسانوں میں موجود ہے سایہ میرا مدتیں بیت گئی ہیں مگر انجام نہ آیا میرا میں سپاہی تو نہیں پھر بھی لڑی ہیں کئی جنگیں میں ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی کے بعد

    جھانکتا ہے تری آنکھوں سے زمانوں کا خلا تیرے ہونٹوں پہ مسلط ہے بڑی دیر کی پیاس تیرے سینے میں رہا شور بہاراں کا خروش اب تو سانسوں میں نہ گرمی ہے نہ آواز نہ باس تو نے اک عمر سے بازو بھی نہیں پھیلائے پھر بھی بانہوں کو ہے صدیوں کی تھکن کا احساس تیرے چہرے پہ سکوں کھیل رہا ہے لیکن تیرے ...

    مزید پڑھیے

    اگر مجھے یہ گمان بھی ہو

    اگر مجھے یہ گمان بھی ہو کہ خواب میں میں نہ دیکھ پاؤں گا تیرا چہرہ گداز بانہیں اداس آنکھیں مرے لبوں کو تلاش کرتے ہوئے ترے لب قسم ہے مجھ کو گزرتی ندی کے پانیوں کی میں اپنی نیندیں جلا کے رکھ دوں اگر مجھے یہ یقین بھی ہو کہ سبز پتے ہوا کی آہٹ نہ سن سکیں گے گلاب موسم برستی بارش نہ سہہ سکے ...

    مزید پڑھیے

    یادوں کی زنجیریں

    اپنے آپ سے لڑتے لڑتے ایک زمانہ بیت گیا اب میں اپنے جسم کے بکھرے ٹکڑوں کے انبار پہ بیٹھا سوچ رہا ہوں میرا ان سے کیا رشتہ ہے ان کا آپس میں کیا رشتہ ہے کون ہوں میں اور کس تلوار سے میں نے اپنے جسم کے ٹکڑے کاٹے ہیں اب میں کیا ہوں اور اب مجھ کو کیا کرنا ہے میں نے کیا تعمیر کیا تھا چھوٹی ...

    مزید پڑھیے

تمام