Shahida Tabassum

شاہدہ تبسم

شاہدہ تبسم کی غزل

    ہے شرط قیمت ہنر بھی اب تو ربط خاص پر

    ہے شرط قیمت ہنر بھی اب تو ربط خاص پر ملے گا سنگ داد بھی ہوا کے رخ کو دیکھ کر کبھی ہوا کا اجر ہے کبھی رتوں کا ہے ہنر کہاں ہوا ہے آج تک پرند کوئی معتبر کنار آب خونچکاں جبیں تو خاک ہو چکی یہ کس کا عکس پانیوں میں پھر اٹھا رہا ہے سر ہزار میں اسیر ہوں ترے طلسم نطق کی یہ قفل دل کہاں کھلا ...

    مزید پڑھیے

    اک ہجوم گریہ کی ہر نظر تماشائی

    اک ہجوم گریہ کی ہر نظر تماشائی دیر سے خرابوں میں ہے اسیر تنہائی دل کی شام کی صورت زخم زخم سناٹا جاں کہ شور وحشت میں صبح کی تمنائی کاکل خزاں تیرے بے سبب الجھنے سے چہرۂ بہاراں پر دیکھ تیرگی چھائی تھی تری نگاہوں کے سیل تیرگی میں گم کب ترے اجالے میں خود کو میں نظر آئی قرب تھا کہ ...

    مزید پڑھیے

    یاد کے شہر مری جاں سے گزر

    یاد کے شہر مری جاں سے گزر قرب کے آخری امکاں سے گزر جل بجھی تھی میں ترے کھلنے تک اب مری خاک پریشاں سے گزر عکس بننے لگا صحرا تیرے میرے سورج رخ تاباں سے گزر زخم گر میرے ہو کچھ اور عطا ہاں عبث نشتر و پیکاں سے گزر اٹھ چکیں گل سخنی کی رسمیں گوش جاں حرف بہاراں سے گزر آخری لو نہ بجھا ...

    مزید پڑھیے

    جنگلوں میں بارشیں ہیں دور تک

    جنگلوں میں بارشیں ہیں دور تک جسم میں پھر وحشتیں ہیں دور تک راستوں میں چھپ گئیں راتیں کہیں خواب گہ میں آہٹیں ہیں دور تک قرب کے لمحوں کی حیراں کوکھ میں کچھ بچھڑتی ساعتیں ہیں دور تک وہ کہیں گم ہو کہیں مل جاؤں میں دھند جیسی چاہتیں ہیں دور تک گھل رہی ہے جسم میں تنہا ہوا فرقتوں میں ...

    مزید پڑھیے

    اسے جب بھی دیکھا بہت دھیان سے

    اسے جب بھی دیکھا بہت دھیان سے تو پلکوں میں آئینے سجنے لگے خوشا اے سر شام بھیگے شجر ترے زخم کچھ اور گہرے ہوئے مسافر پہ خود سے بچھڑنے کی رت وہ جب گھر کو لوٹے بہت دل دکھے کہیں دور ساحل پہ اترے دھنک کہیں ناؤ پر امن بادل چلے بہت تیرگی میرے محلوں میں تھی دریچے جو کھولے تو منظر ...

    مزید پڑھیے

    ہوائیں چاندنی میں کانپتی ہیں

    ہوائیں چاندنی میں کانپتی ہیں مرا مہتاب دکھ پہچانتی ہیں اتر سکتی نہیں حسن بیاں میں جو راتیں حرف جاں کو کاٹتی ہیں بھنور پائل مرے پیروں سے الجھی تری یادوں کی لہریں ناچتی ہیں مری آنکھوں میں ساحل تک نمی ہے مگر نظریں کہ صحرا چھانتی ہیں بدن میں چپ اندھیرا سو رہا ہے امنگیں ایک تارا ...

    مزید پڑھیے

    میں زہر رہی ہر شام رہی

    میں زہر رہی ہر شام رہی بارش کی ہوا بدنام رہی پاتال میں دریا جذب ہوئے میں سطح رہی دو گام رہی امکان اثر پر شمع دعا بجھنے کی ادا کا نام رہی مرے تنہا دشت کے جذبوں میں تری یاد تہ آلام رہی کونپل کو دھوپ ہوا سے کیا مٹی کی نمی ناکام رہی بادل مری چھت پر کب ٹھہرے دیوار پہ گہری شام ...

    مزید پڑھیے

    سنگ زنوں کے واسطے پھر نئے راستوں میں ہے

    سنگ زنوں کے واسطے پھر نئے راستوں میں ہے وحشت جاں کا مسئلہ شیشے کے جنگلوں میں ہے اتری تھیں دشت پر کبھی برگ و ثمر وہ آہٹیں قحط صدائے دوستاں پھر سے سماعتوں میں ہے جن میں نہاں رہا کبھی نکہت و گل کی قربتیں حد زمین و آسماں اب انہی رابطوں میں ہے کسی نے زمیں کے جسم سے فصل وصال چھین ...

    مزید پڑھیے