Shahida Tabassum

شاہدہ تبسم

شاہدہ تبسم کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    ہے شرط قیمت ہنر بھی اب تو ربط خاص پر

    ہے شرط قیمت ہنر بھی اب تو ربط خاص پر ملے گا سنگ داد بھی ہوا کے رخ کو دیکھ کر کبھی ہوا کا اجر ہے کبھی رتوں کا ہے ہنر کہاں ہوا ہے آج تک پرند کوئی معتبر کنار آب خونچکاں جبیں تو خاک ہو چکی یہ کس کا عکس پانیوں میں پھر اٹھا رہا ہے سر ہزار میں اسیر ہوں ترے طلسم نطق کی یہ قفل دل کہاں کھلا ...

    مزید پڑھیے

    اک ہجوم گریہ کی ہر نظر تماشائی

    اک ہجوم گریہ کی ہر نظر تماشائی دیر سے خرابوں میں ہے اسیر تنہائی دل کی شام کی صورت زخم زخم سناٹا جاں کہ شور وحشت میں صبح کی تمنائی کاکل خزاں تیرے بے سبب الجھنے سے چہرۂ بہاراں پر دیکھ تیرگی چھائی تھی تری نگاہوں کے سیل تیرگی میں گم کب ترے اجالے میں خود کو میں نظر آئی قرب تھا کہ ...

    مزید پڑھیے

    یاد کے شہر مری جاں سے گزر

    یاد کے شہر مری جاں سے گزر قرب کے آخری امکاں سے گزر جل بجھی تھی میں ترے کھلنے تک اب مری خاک پریشاں سے گزر عکس بننے لگا صحرا تیرے میرے سورج رخ تاباں سے گزر زخم گر میرے ہو کچھ اور عطا ہاں عبث نشتر و پیکاں سے گزر اٹھ چکیں گل سخنی کی رسمیں گوش جاں حرف بہاراں سے گزر آخری لو نہ بجھا ...

    مزید پڑھیے

    جنگلوں میں بارشیں ہیں دور تک

    جنگلوں میں بارشیں ہیں دور تک جسم میں پھر وحشتیں ہیں دور تک راستوں میں چھپ گئیں راتیں کہیں خواب گہ میں آہٹیں ہیں دور تک قرب کے لمحوں کی حیراں کوکھ میں کچھ بچھڑتی ساعتیں ہیں دور تک وہ کہیں گم ہو کہیں مل جاؤں میں دھند جیسی چاہتیں ہیں دور تک گھل رہی ہے جسم میں تنہا ہوا فرقتوں میں ...

    مزید پڑھیے

    اسے جب بھی دیکھا بہت دھیان سے

    اسے جب بھی دیکھا بہت دھیان سے تو پلکوں میں آئینے سجنے لگے خوشا اے سر شام بھیگے شجر ترے زخم کچھ اور گہرے ہوئے مسافر پہ خود سے بچھڑنے کی رت وہ جب گھر کو لوٹے بہت دل دکھے کہیں دور ساحل پہ اترے دھنک کہیں ناؤ پر امن بادل چلے بہت تیرگی میرے محلوں میں تھی دریچے جو کھولے تو منظر ...

    مزید پڑھیے

تمام