شاہد لطیف کی غزل

    روز کھلنے کی ادا بھی تو نہیں آتی ہے

    روز کھلنے کی ادا بھی تو نہیں آتی ہے اس طرف باد صبا بھی تو نہیں آتی ہے سوچتا ہوں کہ ملاقاتوں کو محدود کروں ان دریچوں سے ہوا بھی تو نہیں آتی ہے اب طریقہ ہے یہی موند لیں اپنی آنکھیں ورنہ دنیا کو حیا بھی تو نہیں آتی ہے اس کی قسمت میں ہیں برسات کے سارے تیور اپنے حصے میں گھٹا بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    زمیں تشکیل دے لیتے فلک تعمیر کر لیتے

    زمیں تشکیل دے لیتے فلک تعمیر کر لیتے ہم اپنے آپ میں ہوتے تو سب تقدیر کر لیتے انہی راہوں پہ چلنے کی کوئی تدبیر کر لیتے اگرچہ خاک اڑتی، خاک کو اکسیر کر لیتے نہیں تھا سر میں سودا بام و در کا اس قدر ورنہ زمانہ دیکھتا کیا کیا نہ ہم تعمیر کر لیتے یہ مہلت بھی بڑی شے تھی ہمیں اے کاش مل ...

    مزید پڑھیے

    آج بھی جس کی ہے امید وہ کل آئے ہوئے

    آج بھی جس کی ہے امید وہ کل آئے ہوئے ان درختوں پہ زمانہ ہوا پھل آئے ہوئے کوئی چہرا ہے جو لگتا نہ ہو مرجھایا ہوا کوئی پیشانی ہے جس پر نہ ہوں بل آئے ہوئے اک نظر دیکھ لے شاید تجھے یاد آ جائیں ہم وہی ہیں تری محفل سے نکل آئے ہوئے جیسے ہر چیز نگاہوں میں ٹھہرنا چاہے دیکھ لینا کبھی موسم ...

    مزید پڑھیے

    ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے

    ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے شام سورج کو سمندر میں چھپا دیتی ہے ایک چہرا مجھے روزانہ سکوں دیتا ہے ایک تصویر مجھے روز رلا دیتی ہے عیب شہرت میں نہیں اس کا نشہ قاتل ہے یہ ہوا کتنے چراغوں کو بجھا دیتی ہے لوگ آتے ہیں ٹھہرتے ہیں گزر جاتے ہیں یہ زمیں خود ہی گزر گاہ بنا دیتی ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو ربط رو بہ زوال ہے یہ سوال ہے

    یہ جو ربط رو بہ زوال ہے یہ سوال ہے مجھے اس کا کتنا ملال ہے یہ سوال ہے یہ جو سر پہ میرے وبال ہے یہ سوال ہے یہ جو گرد و پیش کا حال ہے یہ سوال ہے مجھے کیا غرض مرے دشمنوں کا ہدف ہے کیا مرے پاس کون سی ڈھال ہے یہ سوال ہے مرے سارے خواب ہیں معتبر میں ہوں در بہ در یہ عروج ہے کہ زوال ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    اک عذاب ہوتا ہے روز جی کا کھونا بھی

    اک عذاب ہوتا ہے روز جی کا کھونا بھی رو کے مسکرانا بھی مسکرا کے رونا بھی رونقیں تھی شہروں میں برکتیں محلوں میں اب کہاں میسر ہے گھر میں گھر کا ہونا بھی دل کے کھیل میں ہر دم احتیاط لازم ہے ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے ورنہ یہ کھلونا بھی دیدنی ہے ساحل پر یہ غروب کا منظر بہہ رہا ہے پانی میں ...

    مزید پڑھیے

    لوگ حیران ہیں ہم کیوں یہ کیا کرتے ہیں

    لوگ حیران ہیں ہم کیوں یہ کیا کرتے ہیں زخم کو بھول کے مرہم کا گلا کرتے ہیں کبھی خوشبو کبھی جگنو کبھی سبزہ کبھی چاند ایک تیرے لئے کس کس کو خفا کرتے ہیں ہم تو ڈوبے بھی نکل آئے بھی پھر ڈوبے بھی لوگ دریا کو کنارے سے تکا کرتے ہیں ہیں تو میرے ہی قبیلے کے یہ سب لوگ مگر میری ہی راہ کو ...

    مزید پڑھیے

    دور صحرا میں جہاں دھوپ شجر رکھتی ہے

    دور صحرا میں جہاں دھوپ شجر رکھتی ہے آنکھ کیا شے ہے کہاں جا کے نظر رکھتی ہے اور کچھ روز ابھی صور نہ پھونکا جائے اس کے دربار میں دنیا ابھی سر رکھتی ہے لوگ منزل پہ بہت خوش ہیں مگر منزل بھی لمحہ لمحہ پس امکان سفر رکھتی ہے آؤ اس شخص کی روداد سنیں غور کریں سرخ روئی بھی جسے خاک بسر ...

    مزید پڑھیے

    سہ پہر ہی سے کوئی شکل بناتی ہے یہ شام

    سہ پہر ہی سے کوئی شکل بناتی ہے یہ شام خود جو روتی ہے مجھے بھی تو رلاتی ہے یہ شام جو بھی دیوار اٹھاتی ہے گراتی ہے یہ شام شام کے وقت بہت دھول اڑاتی ہے یہ شام ٹھہری ٹھہری سی تھکی ہاری مصیبت میں گھری ایسا لگتا ہے کہیں دور سے آتی ہے یہ شام ایک بے نام سی الجھن کی طرح پھرتی ہے شہر سے روز ...

    مزید پڑھیے

    کوئی لہجہ کوئی جملہ کوئی چہرا نکل آیا

    کوئی لہجہ کوئی جملہ کوئی چہرا نکل آیا پرانے طاق کے سامان سے کیا کیا نکل آیا بظاہر اجنبی بستی سے جب کچھ دیر باتیں کیں یہاں کی ایک اک شے سے مرا رشتہ نکل آیا مرے آنسو ہوئے تھے جذب جس مٹی میں اب اس پر کہیں پودا کہیں سبزہ کہیں چشمہ نکل آیا خدا نے ایک ہی مٹی سے گوندھا سب کو اک جیسا مگر ...

    مزید پڑھیے