شاہد لطیف کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    روز کھلنے کی ادا بھی تو نہیں آتی ہے

    روز کھلنے کی ادا بھی تو نہیں آتی ہے اس طرف باد صبا بھی تو نہیں آتی ہے سوچتا ہوں کہ ملاقاتوں کو محدود کروں ان دریچوں سے ہوا بھی تو نہیں آتی ہے اب طریقہ ہے یہی موند لیں اپنی آنکھیں ورنہ دنیا کو حیا بھی تو نہیں آتی ہے اس کی قسمت میں ہیں برسات کے سارے تیور اپنے حصے میں گھٹا بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    زمیں تشکیل دے لیتے فلک تعمیر کر لیتے

    زمیں تشکیل دے لیتے فلک تعمیر کر لیتے ہم اپنے آپ میں ہوتے تو سب تقدیر کر لیتے انہی راہوں پہ چلنے کی کوئی تدبیر کر لیتے اگرچہ خاک اڑتی، خاک کو اکسیر کر لیتے نہیں تھا سر میں سودا بام و در کا اس قدر ورنہ زمانہ دیکھتا کیا کیا نہ ہم تعمیر کر لیتے یہ مہلت بھی بڑی شے تھی ہمیں اے کاش مل ...

    مزید پڑھیے

    آج بھی جس کی ہے امید وہ کل آئے ہوئے

    آج بھی جس کی ہے امید وہ کل آئے ہوئے ان درختوں پہ زمانہ ہوا پھل آئے ہوئے کوئی چہرا ہے جو لگتا نہ ہو مرجھایا ہوا کوئی پیشانی ہے جس پر نہ ہوں بل آئے ہوئے اک نظر دیکھ لے شاید تجھے یاد آ جائیں ہم وہی ہیں تری محفل سے نکل آئے ہوئے جیسے ہر چیز نگاہوں میں ٹھہرنا چاہے دیکھ لینا کبھی موسم ...

    مزید پڑھیے

    ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے

    ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے شام سورج کو سمندر میں چھپا دیتی ہے ایک چہرا مجھے روزانہ سکوں دیتا ہے ایک تصویر مجھے روز رلا دیتی ہے عیب شہرت میں نہیں اس کا نشہ قاتل ہے یہ ہوا کتنے چراغوں کو بجھا دیتی ہے لوگ آتے ہیں ٹھہرتے ہیں گزر جاتے ہیں یہ زمیں خود ہی گزر گاہ بنا دیتی ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو ربط رو بہ زوال ہے یہ سوال ہے

    یہ جو ربط رو بہ زوال ہے یہ سوال ہے مجھے اس کا کتنا ملال ہے یہ سوال ہے یہ جو سر پہ میرے وبال ہے یہ سوال ہے یہ جو گرد و پیش کا حال ہے یہ سوال ہے مجھے کیا غرض مرے دشمنوں کا ہدف ہے کیا مرے پاس کون سی ڈھال ہے یہ سوال ہے مرے سارے خواب ہیں معتبر میں ہوں در بہ در یہ عروج ہے کہ زوال ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

تمام