Shahid Jamal

شاہد جمال

شاہد جمال کی غزل

    پھولوں سے سج گئی کہیں سبزہ پہن لیا

    پھولوں سے سج گئی کہیں سبزہ پہن لیا بارش ہوئی تو دھرتی نے کیا کیا پہن لیا جب سے پڑھی چٹائی نشینوں کی زندگی موٹا مہین جو بھی ملا کھا پہن لیا اک جسم ہے جو روز بدلتا ہے کچھ لباس اک روح ہے کہ اس نے جو پہنا پہن لیا ایسا لگا کہ خود بھی بڑا ہو گیا ہوں میں جب بھی بڑوں کا میں نے اتارا پہن ...

    مزید پڑھیے

    گھر ہو یا باہر وہی کڑوی کسیلی گفتگو

    گھر ہو یا باہر وہی کڑوی کسیلی گفتگو کب تلک سنتے رہیں ہم ایک جیسی گفتگو چند لمحوں میں بھٹک جائے جو موضوعات سے بے سبب وہ کیوں کیا کرتا ہے علمی گفتگو اس کے لہجے میں تو ہلکی سی ندامت بھی نہیں اک طرف ہم بھول جائیں پچھلی ساری گفتگو پل میں رتی پل میں ماشا پل میں رائی کا پہاڑ پک چکے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    روز دہرائیں گے جب شام و سحر کی تاریخ

    روز دہرائیں گے جب شام و سحر کی تاریخ کیسے بدلے گی بھلا آپ کے گھر کی تاریخ ان فضاؤں میں کوئی بڑھ کے دکھائے تو کمال خود بہ خود ہوگی رقم بازوئے پر کی تاریخ اپنے بچوں کو نہ دیں پائے کبھی کوئی خوشی صرف ہم لکھتے رہے اپنے ہنر کی تاریخ لوٹنے والے کبھی لوٹ نہ پائیں گے مجھے میں بتا دوں گا ...

    مزید پڑھیے

    چھاؤں اوروں کے لئے ہے تو ثمر اوروں کے

    چھاؤں اوروں کے لئے ہے تو ثمر اوروں کے کام آتے ہیں ہمیشہ ہی شجر اوروں کے وہ ہے آئینہ اسے فکر ہو کیوں کر اپنی وہ بتاتا ہے فقط عیب و ہنر اوروں کے جنگ میدان سے کمروں میں سمٹ آئی ہے گھر نہ جانا کبھی بے خوف و خطر اوروں کے عہد نو تیری سیاست کا کرم ہے کہ یہاں جسم اپنے ہیں مگر جسموں پہ سر ...

    مزید پڑھیے

    کیسے توڑی گئی یہ حد ادب پوچھتے ہیں

    کیسے توڑی گئی یہ حد ادب پوچھتے ہیں پھول شاخوں سے لچکنے کا سبب پوچھتے ہیں شاخ جس شاخ سے ٹکرائی ہے جھوم اٹھی ہے پیڑ آپس میں کہاں نام و نسب پوچھتے ہیں کوئی اندازہ کرے چاند کی بے چینی کا جب ستارے کبھی سورج کا لقب پوچھتے ہیں آنکھ جیسے ہی جھپکتی ہے ہمیشہ کچھ خواب کتنے دن بعد میسر ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی ملتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہوں میں

    جو بھی ملتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہوں میں کیا کروں مجبوریوں ہیں گاؤں سے آیا ہوں میں کل بھی احساسات کے شعلوں پہ تھا میرا وجود آج بھی ہر لمحہ سونے کی طرح لگتا ہوں میں مجھ سے ہی قائم ہے اب تک تیرا تہذیبی وقار توڑ مت مجھ کو کہ گھر کا صدر دروازہ ہوں میں میں ترے ساحل پہ آیا ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے

    کتاب دل کے ورق جو الٹ کے دیکھتا ہے

    کتاب دل کے ورق جو الٹ کے دیکھتا ہے وہ کائنات کو اوروں کو ہٹ کے دیکھتا ہے اگر نہیں ہے بچھڑنے کا رنج کچھ بھی اسے وہ بار بار مجھے کیوں پلٹ کے دیکھتا ہے ندی بڑھی ہو کہ سوکھی ہر ایک صورت میں کنارہ اپنے ہی پانی سے ہٹ کے دیکھتا ہے کسی کو تیرگی پاگل نہ کر سکے جب تک کہاں چراغ کی لو سے پلٹ ...

    مزید پڑھیے

    کہیں کا غصہ کہیں کی گھٹن اتارتے ہیں

    کہیں کا غصہ کہیں کی گھٹن اتارتے ہیں غرور یہ ہے کاغذ پہ فن اتارتے ہیں سنی ہے ٹوٹتے پتوں کی ہم نے سرگوشی یہ پیڑ پودے بھی کیا پیرہن اتارتے ہیں سیاسی لوگوں سے امید کیسی خاک وطن وطن کا قرض کہیں راہزن اتارتے ہیں زمیں پہ رکھ دیں اگر آپ اپنی شمشیریں تو ہم بھی اپنے سروں سے کفن اتارتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ دن یہ رات یہ شام و سحر سمیٹ لئے

    یہ دن یہ رات یہ شام و سحر سمیٹ لئے غزل کے شوق نے کتنے پہر سمیٹ لئے فضا میں ایسا تعصب کا زہر پھیل گیا نہ جانے کتنے پرندوں نے پر سمیٹ لئے سماج تیری مرمت نہ ہو سکے گی کہیں جو ہم غریبوں نے دست و ہنر سمیٹ لئے یہ سوچ کر کہ اندھیرے نہ زندگی بن جائیں جہاں جہاں ملے شمس و قمر سمیٹ ...

    مزید پڑھیے

    پہاڑ ہونے کا سارا غرور کانپ اٹھا

    پہاڑ ہونے کا سارا غرور کانپ اٹھا بس اک ذرا سی تجلی سے طور کانپ اٹھا ہوا نے جیسے ہی تیور دکھائے ہیں اپنے نکل رہا تھا دیئے سے جو نور کانپ اٹھا پڑھی جو جبر و تشدد کی داستان کہیں کبھی شعور کبھی لا شعور کانپ اٹھا لبوں پہ آ نہ سکی اپنے دل کی ایک بھی بات کہ جب بھی پہنچا میں اس کے حضور ...

    مزید پڑھیے