Shahid Fareed

شاہد فرید

شاہد فرید کی غزل

    ہم دونوں نے نام لکھا تھا ساحل پر

    ہم دونوں نے نام لکھا تھا ساحل پر اور دل کا پیغام لکھا تھا ساحل پر تنہائی تھی اور سنہری لہریں تھیں سورج نے جب شام لکھا تھا ساحل پر گھر میں تو ہر سو تھا وحشت کا سایہ قسمت میں آرام لکھا تھا ساحل پر اک سادھو نے راکھ ملی تھی چہرے پر اور پوروں سے رام لکھا تھا ساحل پر کود گئے سب رند ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہم راہ محبت کے حوالے رکھنا

    اپنے ہم راہ محبت کے حوالے رکھنا کتنا دشوار ہے اک روگ کو پالے رکھنا اتنا آسان نہیں بند گلی میں رہنا شہر تاریک میں یادوں کے اجالے رکھنا ہم زیادہ کے طلب گار نہیں ہیں لیکن وقت کچھ بہر ملاقات نکالے رکھنا بات کر لیں گے جدائی پہ کہیں بعد میں ہم اپنے ہونٹوں پہ سر بزم تو تالے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی غمی کے نام پر کبھی خوشی کی آڑ میں

    کبھی غمی کے نام پر کبھی خوشی کی آڑ میں تباہ کر گیا مجھے وہ دوستی کی آڑ میں وہ جب چلا گیا یہاں سے پھر مجھے خبر ہوئی کہ موت پالتا رہا ہوں زندگی کی آڑ میں وہ شخص بھی عجیب تھا عجیب اس کے شوق تھے خدا تراشتا رہا صنم گری کی آڑ میں میں قربتوں کی چاہ میں قریب اس کے ہو گیا وہ دور مجھ سے ہو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بنتے ہیں

    کوئی بچ نہیں پاتا ایسا جال بنتے ہیں کیسے کیسے قصے یہ ماہ و سال بنتے ہیں جانے کتنی صدیوں سے ہر برس خزاں رت میں خشک پتے دھرتی پر زرد شال بنتے ہیں آج کل نہ جانے کیوں ذہن پر تناؤ ہے ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے جو خیال بنتے ہیں شہر والے پوچھیں گے کچھ سبب جدائی کا گھر کے خالی کونے بھی کچھ سوال ...

    مزید پڑھیے

    مضطرب سا رہتا ہے مجھ سے بات کرتے وقت

    مضطرب سا رہتا ہے مجھ سے بات کرتے وقت پھیر کر کلائی کو بار بار دیکھے وقت بارہا یہ سوچا ہے گھر سے آج چلتے وقت حادثہ نہ ہو جائے راہ سے گزرتے وقت کوئی بھی نہیں پہنچا آگ سے بچانے کو میں تھا اور تنہائی اپنے گھر میں جلتے وقت اس قدر اندھیرا تھا اس قدر تھا سناٹا چاندنی بھی ڈرتی تھی گاؤں ...

    مزید پڑھیے

    تیرے درشن سدا نہیں ہوتے

    تیرے درشن سدا نہیں ہوتے معجزے بارہا نہیں ہوتے آؤ تو آہٹیں نہیں ہوتیں جاؤ تو نقش پا نہیں ہوتے تم سے ملنے ضرور آؤں گا فرض مجھ سے قضا نہیں ہوتے ٹوٹ جاتے ہیں حبس موسم میں وہ دریچے جو وا نہیں ہوتے ہاتھ خالی اٹھاتے ہیں شاہدؔ لب پہ حرف دعا نہیں ہوتے

    مزید پڑھیے

    کس قدر ہے مہیب سناٹا

    کس قدر ہے مہیب سناٹا خواہشوں کا عجیب سناٹا زرد رت کا خراج ہے پت جھڑ وحشتوں کا نقیب سناٹا ہے مجھے پیار اجڑے لوگوں سے چاہتا ہوں قریب سناٹا میں کہ تنہا اداس آوارہ میرا ہمدم حبیب سناٹا تم مسافر بہار رستوں کے میری منزل صلیب سناٹا چاندنی رات کہہ گئی شاہدؔ رت جگوں کا نصیب سناٹا

    مزید پڑھیے

    غم کا کوئی تو حل تلاش کریں

    غم کا کوئی تو حل تلاش کریں خوب صورت محل تلاش کریں نفرتوں کے اجاڑ موسم میں پیار کا کوئی پل تلاش کریں بھوک اگنے لگی ہے بستی میں تشنہ لب لوگ جل تلاش کریں کتنے پاگل ہیں میرے شہر کے لوگ بانجھ موسم میں پھل تلاش کریں تلخ یادوں کو بھول کر شاہدؔ حال میں اپنا کل تلاش کریں

    مزید پڑھیے