Shahid Ahmad Shoaib

شاہد احمد شعیب

شاہد احمد شعیب کی غزل

    دم اجنبی صداؤں کا بھرتے ہو صاحبو

    دم اجنبی صداؤں کا بھرتے ہو صاحبو ہر لمحہ اپنی جاں سے گزرتے ہو صاحبو کیا جانے کیا ہے بات کہ ہر سمت بھیڑ میں اپنا ہی چہرہ دیکھ کے ڈرتے ہو صاحبو تم بھی عجیب لوگ ہو کانٹوں کی راہ سے کیسے لہولہان گزرتے ہو صاحبو اک اجنبی سی آگ ہے جل کے اس میں آج کس زندگی کی کھوج میں مرتے ہو صاحبو کیا ...

    مزید پڑھیے

    یوں دیکھنے کو دیکھتے رہتے ہیں خواب لوگ

    یوں دیکھنے کو دیکھتے رہتے ہیں خواب لوگ رکھتے ہیں روز و شب کا بھی لیکن حساب لوگ اک روز زندگی نے کیا تھا کوئی سوال کیا جانے کب سے ڈھونڈ رہے ہیں جواب لوگ ہر چہرۂ سوال سے کرتے ہو خود سوال تم لوگ بھی ہو شہر میں کیا لا جواب لوگ ہر آسماں کو اپنی زمیں تک اتار لائے کیا کیا نہ کر گزرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ بے نیاز شب و روز و ماہ و سال گیا

    وہ بے نیاز شب و روز و ماہ و سال گیا اب اس کے گمشدہ ہونے کا احتمال گیا وہ اک خیال کہ ہر دم جہاں خیال گیا کبھی عذاب میں رکھا کبھی سنبھال گیا جو شہر لفظ و معانی سے دور دور رہا وہ بے ہنر تری گلیوں سے با کمال گیا حدود وقت سے آگے اڑان بھرتے رہے امیر وقت کا منصب گیا جلال گیا ہمیں تو رت ...

    مزید پڑھیے

    دل کے زخموں کی لویں اور ابھارو لوگو

    دل کے زخموں کی لویں اور ابھارو لوگو آج کی رات کسی طرح گزارو لوگو روٹھ کر زندگی کیا جانے کدھر جانے لگی اس طرح دوڑو ذرا اس کو پکارو لوگو کتنی سج دھج ہے نگار غم و آلام کی آج اس کی شوخی کو ذرا اور نکھارو لوگو سر خوشی اب بھی تماشائی ہے میخانے میں اس ستم گر کو تو شیشے میں اتارو ...

    مزید پڑھیے

    اے نگار غم و آلام تری عمر دراز

    اے نگار غم و آلام تری عمر دراز تو نے بخشے بہت آرام تری عمر دراز شہر میں دشت میں صحرا میں جہاں بھی دیکھا اب ہے ہر سمت مرا نام تری عمر دراز صبح نے پھر مرے زخموں سے اجالا مانگا ایک زخم اور مرے نام تری عمر دراز میرے تاریک خرابے میں ترے درد کا نور آج آیہ ہے بڑا کام تری عمر دراز کوئی ...

    مزید پڑھیے

    اے نگار غم و آلام تری عمر دراز

    اے نگار غم و آلام تری عمر دراز تو نے بخشے بہت آرام تری عمر دراز شہر میں دشت میں صحرا میں جہاں بھی دیکھا اب ہے مشہور مرا نام تری عمر دراز سرخ رو اب بھی تو ہر کوچہ و بازار میں ہے اپنے سر ہیں سبھی الزام تری عمر دراز فصل گل آئی تھی لے لے کے ترا نام گئی تو کہاں پھرتا تھا نا کام تری عمر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی پانے کی حسرت ہے تو مرتا کیوں ہے

    زندگی پانے کی حسرت ہے تو مرتا کیوں ہے شہر ممنوعہ سے ہو کر وہ گزرتا کیوں ہے جب بھی امرت کی کوئی بوند زباں پر ٹپکی اک عجب زہر سا رگ رگ میں اترتا کیوں ہے چھو کے ہر شے کو گزر جاتا ہے وہ سیل بلا میرے بے نام جزیرے میں ٹھہرتا کیوں ہے ہم کو معلوم ہے لمحات کا حاصل بھی شعیبؔ دل مگر ڈوب کے ...

    مزید پڑھیے