اداسی نے سماں باندھا ہوا ہے
اداسی نے سماں باندھا ہوا ہے خوشی کے ساتھ پھر دھوکہ ہوا ہے مجھے اپنی ضرورت پڑ گئی ہے مرے اندر سے اب وہ جا چکا ہے کہانی سے عجب وحشت ہوئی ہے مرا کردار جب پختہ ہوا ہے میں ہر در پر صدائیں دے رہا ہوں کوئی آواز دے کر چھپ گیا ہے
اداسی نے سماں باندھا ہوا ہے خوشی کے ساتھ پھر دھوکہ ہوا ہے مجھے اپنی ضرورت پڑ گئی ہے مرے اندر سے اب وہ جا چکا ہے کہانی سے عجب وحشت ہوئی ہے مرا کردار جب پختہ ہوا ہے میں ہر در پر صدائیں دے رہا ہوں کوئی آواز دے کر چھپ گیا ہے
یہ خودکشی تو مری جان اک بہانہ ہے ندی سے رابطہ میرا بہت پرانا ہے یہ میرے ساتھ اداسی کا آخری دن ہے پھر اس کے بعد کہیں اور آب و دانہ ہے مری زمین پہ پھیلا ہے آسمان عدم ازل سے میرے زمانے پہ اک زمانہ ہے تمہاری موت پہ رونے کا دل بہت تھا مگر جو پیڑ سوکھ گیا ہے اسے گرانا ہے سمندروں سے ...
یادوں کی دیوار گراتا رہتا ہوں میں پانی سے آنکھ بچاتا رہتا ہوں ساحل پہ کچھ دیر اکیلے ہوتا ہوں پھر دریا سے ہاتھ ملاتا رہتا ہوں یادوں کی برسات تو ہوتی رہتی ہے میں آنکھوں سے خواب گراتا رہتا ہوں ساحرؔ کی ہر نظم سنا کر مجنوں کو میں صحرا کا درد بڑھاتا رہتا ہوں دنیا والے مجھ کو پاگل ...
کسی آسیب زدہ دل کی صدا ہے کیا ہے یہ مرے ساتھ سمندر ہے ہوا ہے کیا ہے سلوٹیں روح کی آتی ہیں نظر جسموں پر دل ناداں یہ کوئی بند قبا ہے کیا ہے اس کے ہم راہ بھی چلنا ہے مگر سوچو تو راستے میں جو کہیں چھوٹ گیا ہے کیا ہے کون اس پل مری تنہائی سے ہے خوف زدہ یار دیکھو تو ذرا فون بجا ہے کیا ...
پرائے شہر میں خوشبو تلاش لیتے ہیں جو اہل دل ہیں وہ اردو تلاش لیتے ہیں ہمیں تلاش ہے ایسے نگاہ والوں کی جو دن کے وقت بھی جگنو تلاش لیتے ہیں میں جانتا ہوں کچھ ایسے اداس لوگوں کو جو قہقہوں میں بھی آنسو تلاش لیتے ہیں انہیں بھی اپنی طرف کھینچ لو وفا والوں جو خون بیچ کے گھنگھرو تلاش ...
اس نے مجھ سے تو کچھ کہا ہی نہیں میرا خود سے تو رابطہ ہی نہیں قضا گر روز دست بدلے ہے مجھ کو ایجاد تو کیا ہی نہیں اپنے پیچھے میں چھپ کے چلتا ہوں میرا سایہ مجھے ملا ہی نہیں کتنی مشکل کے بعد ٹوٹا ہے اک رشتہ کبھی جو تھا ہی نہیں بعد مرنے کے گھر نصیب ہوا زندگی نے تو کچھ دیا ہی نہیں ہے ...
خواب سے دل لگی نہ کر لینا نیند سے دشمنی نہ کر لینا آج سے زندگی تمہاری ہے تم مگر خود کشی نہ کر لینا درد بڑھ جائے تو دوا لینا زخم سے دوستی نہ کر لینا وصل کی شب بھلے ہی کالی ہو ہجر میں روشنی نہ کر لینا زلزلے بھی اداس ہوتے ہیں دل کی بستی گھنی نہ کر لینا ساتھ پڑھتی ہو ٹھیک ہے ...