Shafqat Tanveer Mirza

شفقت تنویر مرزا

  • 1932 - 2012

شفقت تنویر مرزا کی غزل

    صدیوں تمہاری یاد میں شمعیں جلائیں گے

    صدیوں تمہاری یاد میں شمعیں جلائیں گے پل بھر کے بعد پھر بھی تمہیں بھول جائیں گے تعمیر مدعا طلب ذوق ہو گئی بنیاد درد ہوگی تو دیوار اٹھائیں گے اب کاہش جنوں کا کوئی سلسلہ نہیں ہاں بے دلی سے دست دعا بھی اٹھائیں گے اے کاروان تیز قدم ماندگاں کو دیکھ آنکھوں میں کیا غبار سر رہ سجائیں ...

    مزید پڑھیے

    لوگ ہیں منتظر نور سحر مدت سے

    لوگ ہیں منتظر نور سحر مدت سے میں بھی بیٹھا ہوں سر راہ گزر مدت سے مدتوں دار و رسن زیست کا عنوان رہے مورد سنگ ہیں اس شہر میں سر مدت سے جس کی منزل کا نشاں تک بھی نہیں نظروں میں کب سے اس راہ میں ہیں محو سفر مدت سے وہ کوئی دشت و بیاباں ہو کہ آبادی ہو بن چکے ہیں سبھی شعلوں کے نگر مدت ...

    مزید پڑھیے

    قربت حسن میں بھی درد کے آثار ملے

    قربت حسن میں بھی درد کے آثار ملے چارہ گر عشق کے مرہم کے طلب گار ملے دست و پا اپنے تو وابستۂ زنجیر سہی اک تمنا تھی کوئی صاحب و مختار ملے ہاں جنوں خیزیٔ دل رہن مسرت نہ ہوئی خوش ہوئی وحشت غم جب رسن و دار ملے خاک اڑائیں کہ نئے شہر بسائیں یارو ہم بہ ہر رنگ ہر اک شوق سے بیزار ملے ہم ...

    مزید پڑھیے

    ریگ رواں پہ نقش کف پا نہ دیکھنا

    ریگ رواں پہ نقش کف پا نہ دیکھنا آئینۂ ضمیر میں چہرا نہ دیکھنا بے صرفہ ہے لہو کی تمازت مرے لیے اسرار جسم و جاں کو برہنہ نہ دیکھنا جو آنسوؤں کے لعل و جواہر بکھیر دے اس ایک موج درد کو اٹھتا نہ دیکھنا راتوں کا چین دن کا سکوں ہو اگر عزیز چلتا ہے ساتھ ساتھ جو سایہ نہ دیکھنا ہے شب کی ...

    مزید پڑھیے

    شق عافیت کنار کنارے کو کر گئی

    شق عافیت کنار کنارے کو کر گئی دریا کی موج سر کو پٹک کر گزر گئی تہمت کا سیل صبح کو اٹھنے لگا کہ شب دستک تھی ایک در پہ صدا در بدر گئی غارت گر سکوں تھیں نوا ہائے خون بلب جنگل کی شام شہر میں آئی تو ڈر گئی روتا پھرے گا رات کے رستوں پہ ماہتاب آغوش ارض خاک تو سورج سے بھر گئی آرام جاں ...

    مزید پڑھیے

    رنگوں لفظوں آوازوں سے سارے رشتے ٹوٹ گئے

    رنگوں لفظوں آوازوں سے سارے رشتے ٹوٹ گئے سیل بلا میں دشت خلا کے کتنے کنارے ٹوٹ گئے گونگے بہرے لوگوں سے اب ساری عمر نباہنا ہے جینا مرنا ایک برابر کچے دھاگے ٹوٹ گئے دل کے گرد حصار کھنچا تو اس کا ملنا محال ہوا چاروں کھونٹ آوارہ پھرے جب پاؤں بھی اپنے ٹوٹ گئے کھنڈر کھنڈر سب آوازوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے تو یہی معرکہ مارا ہے سفر میں

    ہم نے تو یہی معرکہ مارا ہے سفر میں منزل کی طرح بیٹھ گئے راہ گزر میں وہ شمع شب انجام کی صورت تو نہیں تھا اک پل میں شب نصف اتر آئی ہے گھر میں اے نالۂ دل دوز تڑپ اٹھی خموشی ہے مرگ تماشا کسی آباد نگر میں ہم خاک کے تودے پہ کھڑے پوچھ رہے ہیں کیا لطف ملا تم کو سمندر کے سفر میں ہم سایۂ ...

    مزید پڑھیے

    ہم خرابے میں بسر کر گئے خاموشی سے

    ہم خرابے میں بسر کر گئے خاموشی سے حلقۂ موج میں گوہر گئے خاموشی سے ساعت وصل قیامت کی گھڑی ٹھہری تھی جسم خاموش تھے دل ڈر گئے خاموشی سے آزمائش تھی کڑی کوئے وفا میں کہ جہاں کج کلہ آئے سبک سر گئے خاموشی سے ہم ترے ہجر میں آوارہ سخن ہو نکلے زخم جو تو نے دیئے بھر گئے خاموشی سے شکوہ سنج ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے پاس تھا جو کچھ لٹا کے بیٹھ رہے

    ہمارے پاس تھا جو کچھ لٹا کے بیٹھ رہے دیار دل میں قیامت اٹھا کے بیٹھ رہے وہاں جہاں پر اندھیروں کا کارواں اترا کسی امید پہ شمعیں جلا کے بیٹھ رہے تمہارے ہجر میں جو کچھ گزر گئی گزری تمہارے وصل میں ہم گھر جلا کے بیٹھ رہے کہاں کے دار و رسن اور کیا شہید وفا یہ کاروبار بھی کل پھر اٹھا ...

    مزید پڑھیے

    برسی ہیں وہ آنکھیں کہ نہ بادل کبھی برسے

    برسی ہیں وہ آنکھیں کہ نہ بادل کبھی برسے اندازۂ غم کیا ہو مگر دیدۂ تر سے وہ چارہ گری تھی کہ عزیزوں کی دعائیں لوٹ آئی ہیں ماتم کے لیے باب اثر سے اک جبر مسلسل ہے عناصر کی کہانی مختار کہے جاتے تھے جب نکلے تھے گھر سے شاید کوئی منزل نہیں اس راہ میں پڑتی واپس نہیں آتا کوئی یادوں کے سفر ...

    مزید پڑھیے