Shafqat Kazmi

شفقت کاظمی

  • 1914 - 1975

شفقت کاظمی کی غزل

    حسرت یہی دل میں لے چلے ہم

    حسرت یہی دل میں لے چلے ہم تجھ کو نہ لگا سکے گلے ہم نکلے ہیں وطن سے منہ اندھیرے معلوم نہیں کہاں چلے ہم ہر حال رہے تجھی سے منسوب اے دوست برے تھے یا بھلے ہم حائل تھے جو اپنے راستے میں طے کر نہ سکے وہ مرحلہ ہم شفقتؔ بہ ہجوم یاس و حرماں دیکھا کیے دل کے حوصلہ ہم

    مزید پڑھیے

    ہمارے حال پہ کس دن جفا نہیں کرتے

    ہمارے حال پہ کس دن جفا نہیں کرتے یہ اور بات کہ وہ برملا نہیں کرتے یہ رنگ و نور کی دنیا نظر نواز سہی ترے فقیر مگر اعتنا نہیں کرتے ضرور کوئی خطا ہم سے ہو گئی ہوگی وہ بے سبب تو کسی پر جفا نہیں کرتے کبھی تو ان کو ہمارا خیال آئے گا ہم اس امید پہ ترک وفا نہیں کرتے انہیں سے ہم کو محبت ...

    مزید پڑھیے

    بیگانہ ملے ہے جب ملے ہیں

    بیگانہ ملے ہے جب ملے ہیں یاروں سے ہمیں بہت گلے ہیں یاد آئے ہیں دوستوں کے میلے جب پھول چمن چمن کھلے ہیں شاکی ہوں میں جن کی بے رخی کا اکثر وہی بے طلب ملے ہیں یہ داغ یہ زخم بے کسی کے شاید تری چاہ کے صلے ہیں اس طرح چھٹی کہ پھر نہ آئی ہم کو تری یاد سے گلے ہیں گزرے ہیں نظر بچا کے ...

    مزید پڑھیے

    کس راہ پہ ہیں رواں دواں ہم

    کس راہ پہ ہیں رواں دواں ہم جائیں گے خبر نہیں کہاں ہم اک بار فریب کھا گئے تھے اب تک ہیں کسی سے بد گماں ہم یوں تیری نگاہ سے گرے ہیں گویا تھے متاع رائیگاں ہم رستوں کی خبر نہ منزلوں کی کیا جانئے آ گئے کہاں ہم دل میں تھیں کچھ ایسی حسرتیں بھی تجھ سے جو نہ کر سکے یہاں ہم گزری ہے قفس ...

    مزید پڑھیے

    تیرے ہر جور پہ یاں شکر خدا ہے اے دوست

    تیرے ہر جور پہ یاں شکر خدا ہے اے دوست کہ یہی مسلک ارباب وفا ہے اے دوست ہم کو اس عہد وفا سے تھیں امیدیں کتنی تجھ کو جو عہد وفا بھول چکا ہے اے دوست تیری جانب سے نہ لائی کوئی پیغام کبھی میری فریاد بھی صحرا کی صدا ہے اے دوست تیرے آنے کی دوبارہ جو کوئی آس نہیں کتنی سنسان مرے دل کی فضا ...

    مزید پڑھیے

    نا مہرباں اگرچہ کسی کی نظر نہ تھی

    نا مہرباں اگرچہ کسی کی نظر نہ تھی یہ اور بات ہے کہ مرے حال پر نہ تھی وو شام بے چراغ مقدر ہوئی مجھے جو آشنائے جلوۂ روئے سحر نہ تھی بھٹکے ہوئے تھے جادۂ راہ وفا سے ہم جب تک کسی کی یاد شریک سفر نہ تھی تجھ کو مری نگاہ نے ڈھونڈا ہے بارہا اس رہ گزر پہ بھی جو تری رہ گزر نہ تھی محفل میں ...

    مزید پڑھیے

    جو بایں غم بھی شادماں گزری

    جو بایں غم بھی شادماں گزری جانے وہ زندگی کہاں گزری دل سے اندیشۂ خزاں نہ گیا گو بہاروں کے درمیاں گزری جتنی مدت میں ان سے دور رہا اتنی مدت بلائے جاں گزری یاد رکھیں گے آسماں والے مجھ پہ جو زیر آسماں گزری تھی مرے ان کے درمیاں جو بات وہ زمانے پہ کیوں گراں گزری کس کو معلوم تلخیاں ...

    مزید پڑھیے

    ہر گھڑی کرب مسلسل میں کٹی جاتی ہے

    ہر گھڑی کرب مسلسل میں کٹی جاتی ہے زندگی اپنے گناہوں کی سزا پاتی ہے یاد آؤں کہ نہ آؤں مری قسمت لیکن ان سے امید ملاقات چلی جاتی ہے یوں مرے بعد ہے دنیا پہ اداسی طاری جیسے دنیا مرے حالات کا غم کھاتی ہے جب بھی آتا ہے تصور ترے انسانوں کا ایک فریاد مرے منہ سے نکل جاتی ہے خوش رہو دشت ...

    مزید پڑھیے

    تصویر اضطراب سراپا بنا ہوا

    تصویر اضطراب سراپا بنا ہوا پھرتا ہوں شہر شہر انہیں ڈھونڈھتا ہوا اک درد اور وہ بھی کسی کا دیا ہوا اتنا بڑھا کہ آپ ہی اپنی دوا ہوا مل کر بچھڑ گیا تھا کوئی جس مقام پر اب تک اسی مقام پہ ہوں چپ کھڑا ہوا جیسے اسے خبر تھی مرے حال زار کی گزرا وہ اس ادا سے مجھے دیکھتا ہوا جن حادثات دہر ...

    مزید پڑھیے