نا مہرباں اگرچہ کسی کی نظر نہ تھی
نا مہرباں اگرچہ کسی کی نظر نہ تھی
یہ اور بات ہے کہ مرے حال پر نہ تھی
وو شام بے چراغ مقدر ہوئی مجھے
جو آشنائے جلوۂ روئے سحر نہ تھی
بھٹکے ہوئے تھے جادۂ راہ وفا سے ہم
جب تک کسی کی یاد شریک سفر نہ تھی
تجھ کو مری نگاہ نے ڈھونڈا ہے بارہا
اس رہ گزر پہ بھی جو تری رہ گزر نہ تھی
محفل میں تھے سب اپنی جگہ مطمئن مگر
کیا جانے وہ نگاہ کدھر تھی کدھر نہ تھی
شفقتؔ مرا خیال انہیں کیوں نہ آ سکا
ان کو مرے خیال سے وحشت اگر نہ تھی