Shafiq Jaunpuri

شفیق جونپوری

شفیق جونپوری کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    موسم گل ہے نہ دور جام و صہبا رہ گیا

    موسم گل ہے نہ دور جام و صہبا رہ گیا لے گئی سب کو جوانی میں اکیلا رہ گیا جانے کیا ہو کر نگاہوں سے اشارہ رہ گیا ہائے خون آرزو جب ہل کے پردا رہ گیا عشق کی رسوائیاں وہ حسن کی بد نامیاں ہم بھلا بیٹھے مگر دنیا میں چرچا رہ گیا اک سراپا ناز تنہائی مزار عاشقاں ہائے وہ عالم کہ جب خود حسن ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ٹوٹی ہوئی کشتی کا تختہ بھی اگر ہے لا

    کوئی ٹوٹی ہوئی کشتی کا تختہ بھی اگر ہے لا ابھی ساحل پہ ہے تو اور پیش از مرگ واویلا اندھیری رات سے ڈرتا ہے میر کارواں ہو کے اندھیرا ہے تو اپنے داغ دل کی روشنی پھیلا نہ گھبرا تیرگی سے تو قسم ہے سنگ اسود کی کہ تاریکی ہی میں سوئی ہے شام گیسوئے لیلا مذاق شادی و غم تا کجا اے خاک کے ...

    مزید پڑھیے

    کب سے اس دنیا کو سرگرم سفر پاتا ہوں میں

    کب سے اس دنیا کو سرگرم سفر پاتا ہوں میں پھر بھی ہر منزل کو پہلی رہ گزر پاتا ہوں میں مرشد مے خانہ کے قدموں پہ سر پاتا ہوں میں اب دماغ مے پرستی عرش پر پاتا ہوں میں ہر طرف ساقی ترا فیض نظر پاتا ہوں میں خانقاہوں میں بھی مستی کا اثر پاتا ہوں میں دم بدم اس رخ پہ اک حسن دگر پاتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تجھ سے ہمیں اب کوئی شکوہ ہی نہیں

    زندگی تجھ سے ہمیں اب کوئی شکوہ ہی نہیں اب تو وہ حال ہے جینے کی تمنا ہی نہیں انتہا عشق کی ہے آئنۂ دل پہ مرے ماسوا اس کے کوئی عکس ابھرتا ہی نہیں میرے افکار کو دیتی ہے جلا اس کی جفا غم نہ ہوتے تو یہ قرطاس سنورتا ہی نہیں مجھ کو حق بات کے کہنے میں تأمل کیوں ہو میں وہ دیوانہ ہوں جو دار ...

    مزید پڑھیے

    یوں تصور میں بسر رات کیا کرتے تھے

    یوں تصور میں بسر رات کیا کرتے تھے لب نہ کھلتے تھے مگر بات کیا کرتے تھے ہائے وہ رات کہ سوتی تھی خدائی ساری ہم کسی در پہ مناجات کیا کرتے تھے یاد ہے بندگی اہل محبت جس پر آپ بھی فخر و مباہات کیا کرتے تھے ہم کبھی معتکف کنج حرم ہو کر بھی سجدۂ پیر خرابات کیا کرتے تھے یاد کرتا ہے اسی ...

    مزید پڑھیے

تمام