موسم گل ہے نہ دور جام و صہبا رہ گیا
موسم گل ہے نہ دور جام و صہبا رہ گیا لے گئی سب کو جوانی میں اکیلا رہ گیا جانے کیا ہو کر نگاہوں سے اشارہ رہ گیا ہائے خون آرزو جب ہل کے پردا رہ گیا عشق کی رسوائیاں وہ حسن کی بد نامیاں ہم بھلا بیٹھے مگر دنیا میں چرچا رہ گیا اک سراپا ناز تنہائی مزار عاشقاں ہائے وہ عالم کہ جب خود حسن ...