Shafiq Asif

شفیق آصف

شفیق آصف کی غزل

    اگر وہ ہم سفر ٹھہریں تو ہم کو ڈر میں رکھتے ہیں

    اگر وہ ہم سفر ٹھہریں تو ہم کو ڈر میں رکھتے ہیں بکھر جائیں نہ ہم خود کو مقید گھر میں رکھتے ہیں ہمیں سیارگاں کی گردشیں معلوم ہیں لیکن ہم اپنی گردشوں کو اپنے ہی محور میں رکھتے ہیں سفر کے بعد رہتے ہیں تسلسل میں سفر کے ہم تلاش رزق کا جذبہ شکستہ پر میں رکھتے ہیں ہمارا حال دل اب تک کسی ...

    مزید پڑھیے

    محبت کی کرشمہ سازیاں آواز دیتی ہیں

    محبت کی کرشمہ سازیاں آواز دیتی ہیں تری یادوں کی الھڑ شوخیاں آواز دیتی ہیں مسافر لوٹنا چاہو تو لمحوں میں پلٹ جاؤ تمہیں ساحل پہ ٹھہری کشتیاں آواز دیتی ہیں ذرا سی دیر میں موسم بدلنے کا زمانہ ہے ہوا کے بازوؤں کی چوڑیاں آواز دیتی ہیں خزاں کے خوف سے سہمے پرندو لوٹ بھی آؤ تمہیں پھر ...

    مزید پڑھیے