Shafi Mashhadi

شفیع مشہدی

نمائندہ افسانہ نگاروں میں شامل۔

One of the representative fiction writers.

شفیع مشہدی کی رباعی

    مٹی کی خوشبو

    گرمی کی دوپہر نے قبرستان کو مزید ویران بنادیا تھا۔ قبرستان کافی بڑا اور دُور تک پھیلا ہوا تھا۔ اِکاّ دُکاّ قبریں پختہ تھیں مگر بیشتر قبریں کچی مٹی کی تھیں۔ بیشتر قبریں دھنس گئی تھیں جنہیں جھاڑیوں نے چھپا لیا تھا۔ قبروں پر اُگی ہوئی ہریالی، گرمی میں جھلس گئی تھی جس نے ویرانی ...

    مزید پڑھیے

    سیّد کی حویلی

    ’’بہو، اری او بہو‘‘۔ آواز تیز تھی۔ ’’’’جی بیگم صاحب ‘‘! آواز کمزور تھی۔ ’’میں پوچھتی ہوں تمھاری بکریاں آنگن میں کیوں آئیں‘‘۔ آواز میں بے پناہ خفگی تھی۔ ’’کیا کریں بیگم صاحب گلتی ہو گئی‘‘۔ آواز میں معذرت تھی۔ ’’مگر غلطی ہوئی کیوں؟ دیکھو تمھاری بکریوں نے گل داؤدی کا ...

    مزید پڑھیے

    گرتی دیواریں

    خلیفہ جی کو محلے کے سارے لوگ جانتے تھے۔ بچے، بوڑھے، مرد عورت سب ہی انھیں خلیفہ جی کہتے۔ ویسے نام تو ان کا علی محمد تھا مگر کوئی انھیں نام لے کر نہیں پکارتا تھا۔ حتی کہ ان کے بیٹے بھی اکثر انھیں خلیفہ جی ہی کہتے تھے۔ جب کوئی بچہ اپنی توتلی زبان میں کھلیپا جی کہتا تو خلیفہ جی عجیب ...

    مزید پڑھیے

    پیاس

    ’’اے مہاگیانی! جب میں دانتوں پر دانت جما کر اور تالو کو زبان سے لگا کر، دل و دماغ کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے پسینہ آنے لگتا ہے۔ جب میں سانس روک کر تپسّیا کرتا ہوں تو میرے کانوں سے سانس نکلنے کی آواز آتی ہے ... پھر اے گرو دیو، جب میں سانس روک کر اور کانوں کو ہاتھ سے دبا ...

    مزید پڑھیے

    بنت زلیخا

    ’’سمسو کی ماں کو معلوم کہ ہم کھیریت سے ہیں اور تم لوگوں کا کھیریت نیک چاہتا ہوں۔‘‘ ابا کی طرف سے سمسو کو بہت بہت دعا۔ اور ضروری بات یہ ہے کہ سجان میاں کا بیٹا اسلام کے ہاتھ چالیس روپیہ بھیج دیا ہے، جو ملا ہوگا۔ باڑی والا کا کرایہ دے دو اور منّی کو ڈاگدر کو دکھا کے دوا کھلاؤ۔ اس ...

    مزید پڑھیے

    جلدی کرو

    زمین پر تیس پینتیس بچوں کی لاشیں قطار سے رکھی، سورماؤں کو داد شجاعت دے رہی تھیں۔ دونوں جانب رائفلوں پر سنگینیں چڑھائے سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ کوئی بیس گز دور جلے ہوئے برگد کے نیچے دس پندرہ مزدور جلدی جلدی گڈھا کھود رہے تھے اور کچھ باوردی افسر بار بار مزدوروں کو جلدی کرنے کی ...

    مزید پڑھیے

    سنیچرشاہ

    میں نے اُسے پہلی بار جب دیکھا تو وہ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس میں پانی اُنڈیل رہا تھا۔ میں نے کھانے کی میز سے نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو میری آنکھیں اس کے چہرے پر جم کر رہ گئیں۔ اس کی خالی خالی ڈراؤنی بے جان سی آنکھیں میز پر رکھے ہوئے مرغ مسلّم پر جمی ہوئی تھیں اور وہ اُسے مسلسل گھورے جا ...

    مزید پڑھیے

    قہر درویش

    کولتار کی سیاہ سڑک تاحد نظر پھیلی چلی گئی تھی اور کلوکا تانگہ نیم ہموار راستے پر چرّخ چوں، چرّخ چوں کرتا بھاگتا چلا جا رہا تھا۔ ’’ہٹ ٹخ ٹخ، ہٹ چل بیٹا جلدی چل، گاڑی کا ٹیم ہو گیا ہے۔ ہٹ، ارے چل سسری، سواری چھوٹ گئی تو بھوکے مرنا ہوگا۔ ہٹ، ٹخ ٹخ ٹخ‘‘۔ کلو مسلسل باتیں کیے جا رہا ...

    مزید پڑھیے

    سلوٹیں

    لوگ کہتے ہیں جوانی دیوانی ہوتی ہے مگر میں تو کہتی ہوں جوانی بلائے جان ہوتی ہے۔ ہائے بچپن کے وہ دن کیسے مزے کے تھے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ سبق یاد کیا، مولوی صاحب کی ڈانٹ پھٹکار سنی اور پھر مزے ہی مزے۔ ابھی نمکولی کی ہنڈیا پک رہی ہے تو ابھی آم کے درختوں پر جھولے ڈال کر پینگ دی جا رہی ہے۔ آم ...

    مزید پڑھیے

    طوطے کا انتظار

    حویلی کافی پرانی ہو چکی تھی مگر پھر بھی اس کے در و دیوار جس پر سیاہ کائی کی تہہ سی جم گئی تھی، کافی پُروقار دکھائی دیتے تھے۔ اونچے اونچے پایوں پر محراب اور محراب کے اوپربنے ہوئے کمروں میں اونچی اونچی کھڑیاں تھیں۔ نہ جانے کتنے برسوں، کتنی کہانیوں اور کتنے مالکوں کا بوجھ اُٹھائے ...

    مزید پڑھیے