سنیچرشاہ
میں نے اُسے پہلی بار جب دیکھا تو وہ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس میں پانی اُنڈیل رہا تھا۔ میں نے کھانے کی میز سے نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو میری آنکھیں اس کے چہرے پر جم کر رہ گئیں۔ اس کی خالی خالی ڈراؤنی بے جان سی آنکھیں میز پر رکھے ہوئے مرغ مسلّم پر جمی ہوئی تھیں اور وہ اُسے مسلسل گھورے جا رہا تھا۔ اس کی عجیب سی آنکھیں دیکھ کر مجھے جھرجھری آگئی۔ وہ آنکھیں کسی مرے ہوئے آدمی کی آنکھوں کی طرح بے جان تھیں۔ خالی، گہری اور ویران۔ میں چند لمحے ان عجیب و غریب ڈراؤنی آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ پانی اُنڈیلتے وقت اس کا دھیان مرغ مسلّم کی طرف تھا۔ اگر گلاس سے پانی چھلک گیا تو میرا گرم سوٹ جو آج ہی لانڈری سے دُھل کر آیا تھا اور جسے میں کسی تقریب میں ہی گاہے بہ گاہے نکالنے کی جسارت کرتا ہوں، خراب ہو جائے گا۔ میں نے انتہائی لجاجت سے کہا، ’’بھائی دیکھ کر ... کہیں پانی نہ گر جائے‘‘۔ اس نے انتہائی بے تعلقی سے جواب دیا۔ ’’بابو کی بات، ہجاروں سادی میں کھانا کھلایا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ دوسری میز کی طرف اس بے نیازی سے بڑھ گیا جیسے میری بات کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ اس ایک لمحے کی ملاقات میں اس شخص کی آنکھیں میرے شعور پر حاوی ہو گئی تھیں۔ کھانا کھاتے ہوئے میں نے مرغ مسلّم کی پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا ہی تھا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس شخص کی بے جان آنکھیں مرغ مسلّم سے مجھے گھور رہی ہیں۔ بے اختیار میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔
ریاض کی بہن کی شادی کی دعوت کے اس منظر پر دسمبر کی بے پناہ سردی جلد ہی حاوی ہو گئی اورہم لوگ شامیانے سے باہر نکل کر ایکسپریسو مشین کے سامنے کھڑے ہوگئے اور گرم گرم کافی کا مزہ لینے لگے۔ اچانک میرے پاس کھڑے ہارون نے کسی کو آواز دی۔
’’سنیچر، ارے او سنیچر ۔۔۔ کیا حال ہے‘‘؟
میں نے مڑ کر دیکھا تو وہی شخص ہاتھوں میں جھوٹی پلیٹوں کا انبار سنبھالے خیمے کی دوسری طرف جا رہا تھا۔ ہارون کی آواز پر وہ پلٹا۔ اس کی آنکھیں اسی طرح بے جان تھیں۔ میں نے بے اختیار ہارون سے پوچھا ’’یہ کون ہے‘‘؟
’’آپ اسے نہیں جانتے؟ یہ سنیچر ہے۔ چیٹکوہرہ قبرستان کا گورکن۔ بہت محنتی آدمی ہے۔ اس لیے لوگ شادی بیاہ میں کام کرنے کو بلا لیتے ہیں‘‘۔
ہارون نے اس طرح کہا جیسے یہ حیرت کی بات تھی کہ اس شہر میں رہ کر بھی میں اس اہم شخص سے ناواقف تھا۔ میں اپنی حیرت کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ ’’بڑا عجیب سا آدمی ہے۔ اس کی آنکھیں.....‘‘ میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ سمجھ میں نہ آیا، آگے اس کی آنکھوں کے بارے میں کیا کہوں۔
’’ہاں واقعی یہ آدمی عجیب سا ہے۔ ٹھہریے بلاتا ہوں۔‘‘ ہارون نے پھر سنیچر کو آواز دی۔ وہ ’’سلام بابو‘‘ کہتا ہوا ہم لوگوں کی طرف آگیا۔
دُبلا پتلا لمبا سا آدمی۔ مَیلی سی لُنگی پر مَیلی ہاف قمیص جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ ایک کپڑے کا چادر نما ٹکڑا جس کا رنگ کبھی لال رہا ہوگا۔ اس کی گردن اور کانوں کے گرد لپٹا ہوا سردی سے مدافعت کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ دھنسے ہوئے پیٹ اور پچکے ہوئے گالوں سے اس کی غربت کا راز ظاہر تھا، مگر میری نگاہیں تو اس کی بڑی بڑی مگر بے جان آنکھوں پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھیں جو اس کے چہرے پریوں جڑی ہوئی تھیں کہ سردی کے موسم میں بھی ایک گرم سی لہر مجھے اپنی پیشانی پر اُبھرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ ہارون اس سے مخاطب تھے۔
’’کھانا کھا لیا سنیچر‘‘؟
’’بابو کی بات! ابھی تو مہمان لوگ کھا رہے ہیں۔ پھر سارا برتن دھوویں گے، صفائی کریں گے تب کہیں کھانا ملے گا۔ بھور ہو جا ہے بابو ای سب کام میں‘‘۔ اس کے لہجے میں بے پناہ شکایت تھی۔ بھوک اس کے چہرے کی ساری شکنوں میں رینگ رہی تھی مگر وہ کام میں لگا ہوا تھا اور اتنا کہہ کر برتن دھونے کو جا چکا تھا۔
دوسری شام قادری صاحب کے سامنے باورچی اور دوسرے مزدوروں کے ساتھ سنیچر بھی بیٹھا تھا اور قادری صاحب سب کا حساب کر کے پیسے دے رہے تھے۔ اس کی باری آئی تو وہ ہاتھ جوڑ کر بولا ’’بابو ہم سے دو پلیٹ ٹوٹ گیا۔ گلتی ہوا .....آپ چاہے تو پیسہ کاٹ لیجیے۔ کوئی بات نہیں۔ ہم لوگن تو بھوکا رہنے کے عادی ہیں۔ دو دن اور بھوکا رہیں گے۔ کا ہوگا۔ کاٹ لیجیے پیسہ‘‘۔
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ اس قدر اطمینان سے گفتگو کر رہا تھا جیسے پیسے کٹنے کا اُسے کوئی رنج نہ ہو۔ پھر قبل اس کے کہ قادری صاحب کچھ بولتے وہ خود کلامی کے انداز میں بولنے لگا۔
’’کسمت ہی کھراب ہے۔ رات بھر کام کیا مگر دو پلیٹ ٹوٹ گیا۔ کوئی بات نہیں۔ سب اللہ دیتا ہے۔ آپ پیسہ کاٹ لیجیے، اللہ کو دینا ہوگا تو کسی کو بھیج دے گا۔ اس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ایک کو بھی بھیج دے گا تو دو دن کا دال روٹی ہو جائے گا‘‘۔ اس نے پاس بیٹھے ہوئے باورچی پر نظر ڈالی جو مسکرا رہا تھا‘‘۔
’’اَجی ہنستے کا ہو۔ ٹھیک کہہ رہے ہیں ہم۔ ایک کبر کھودنے کا چھ روپیہ ملتا ہے۔ ایک مردہ بھی آجائے تو ہم دو دن کے لیے بے پھکر ہیں‘‘۔
تب میری سمجھ میں آیا کہ سنیچر اللہ میاں سے کس کو بھیجنے کی اُمید لگائے بیٹھا تھا۔ قادری صاحب اس کے اس جملے کا فی الفور اثر ہوا اور انھوں نے پلیٹوں کی قیمت کاٹے بغیر سنیچر کی پوری مزدوری اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ میں کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ ایک شخص کی موت کسی کے لیے مسرت بخش بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک موت سنیچر کو دو دن کی بے فکری عطا کرتی ہے تو سال بھر میں اگر ایک سو بیاسی لوگ مر جائیں تو سنیچر کو سال بھر کی بے فکری مل سکتی ہے۔ اتنے بڑے شہر میں سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں ایک سو بیاسی لوگوں کا مرنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ لوگ شہر میں مرتے ہوں گے۔ لیکن دشواری یہ تھی کہ یہ سارے مُردے سنیچر کے قبرستان میں دفن ہونے نہیں آسکتے تھے۔ خاص طور سے اس لیے کہ یہ قبرستان شہر کے بالکل دوسرے سرے پر تھا۔ دوسرے قبرستان نزدیک تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ جنازے کو کندھے پر اٹھا کر لے جانے کا ہوتا ہے۔ نزدیک ہو تو دو چار لوگ ساتھ چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اب اتنی دور جنازہ لے جانے کی نہ کسی میں طاقت تھی نہ فرصت۔ موت کی خبر سن کر لوگ آتے بھی ہیں تو جنازے کی نماز میں شریک ہو کر الگ ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ مرنے والے کا ساتھ کہاں تک دیا جا سکتا ہے بھلا۔ وہ تو ایسے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے جس کی منزل کا علم بھی سوائے خدا کے کسی کو نہیں ہوتا۔ پھر شہر کے نزدیک ہی ایک نیا قبرستان بھی بن گیا تھا، جس میں انواع و اقسام کے پھول لگائے گئے تھے۔ چہار دیواری بھی تھی۔ گیٹ بھی تھا اور گیٹ کے پاس دربان کے لیے ایک کمرہ بھی تھا۔ بجلی کا انتظام بھی تھا اور رات میں پورا قبرستان روشن رہتا تھا۔ نہ وہاں کسی کو خوف محسوس ہوتا تھا نہ شہر سے دوری تھی۔ پھول کی کیاریوں کے ساتھ ساتھ قبروں کا سلسلہ بڑا خوبصورت لگتا تھا۔ ایسی خوبصورتی اور ایسی روشنی تو بعض زندہ محلوں میں بھی نہیں ہوتی۔ اس خوبصورت باغ میں فاتحہ پڑھنے کے لیے آنے میں عزیز و اقارب جھجکتے بھی نہیں تھے۔ البتہ یہ پتہ نہیں کہ ان برقی قمقموں کی روشنی قبر کی تاریکیوں میں پیوست ہو پاتی تھی یا نہیں۔ پھولوں کی خوشبو زمین کا سینہ چیر کر کافور کی بُو پر حاوی ہوتی تھی یا نہیں؟ قبر کے اندر کی دنیا کس نے دیکھی ہے؟ باہر بہرحال اُجالا تھا، پھول تھے، خوبصورتی تھی۔ پھر لوگ خواہ مخواہ سنیچر کے ویران قبرستان میں کیوں جاتے۔ شاید اسی لیے سنیچر کو دو دن کی بے فکری کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ زیادہ تر وہاں وہی لوگ آتے تھے جو نئے قبرستان کی فیس ادا کرنے سے معذور تھے۔ بڑے لوگ آتے تو شاید سنیچر کو آٹھ دس دنوں کی بے فکری نصیب ہو جاتی۔
گرمی کی سائیں سائیں کرتی دو پہر میں سنیچر قبر کھودتے ہوئے پسینے میں شرابور تھا۔ مٹی اس کے پورے جسم پر چپکی ہوئی تھی اور وہ قبر کے اندر جھکا ہوا سطح کو برابر کر رہا تھا۔ پیڑ کے سائے میں بیٹھے ہوئے لوگ اُکتا رہے تھے۔ ’’بہت دیر ہو رہی ہے۔ بڑی شدت کی گرمی ہے۔ جلدی کرنی چاہیے‘‘۔ ایک نے کہا۔
’’دراصل قبریں پہلے سے تیار ر ہنی چاہئیں۔خواہ مخواہ وقت برباد ہوتا ہے‘‘۔ دوسرے نے کہا۔
’’نئے قبرستان میں قبر ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ آپ جائیے فیس جمع کر دیجیے پانچ منٹ میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے‘‘۔ ایک شخص نے رائے زنی کی۔ ’’لاش کو دفن ہی تو کرنا ہے‘‘۔ جتنی جلدی سبکدوش ہو جائیں بہتر ہے‘‘۔ چوتھے کی آواز آئی۔ ایک منچلے لڑکے نے سنیچر کو ہانک لگائی۔
’’سنیچر جلدی کرو‘‘۔
’’بابو کی بات۔ جلدی توکر ہی رہے ہیں۔ اب کا جان دے دیں‘‘۔
’’تم جان دے دو گے تو قبر کون کھودے گا‘‘؟ لڑکا ہنس کر بولا۔
’’بابو کی بات۔ ہجاروں بابو لوگوں کو گاڑ دیا۔ ہم کو بھی کوئی گاڑ ہی دے گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے سنیچر نے اوپر کی طرف سر اٹھایا تو اس کی بے جان خوفناک آنکھیں دیکھ کر مجھے جھُرجھُری آگئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے قبر میں کسی لاش کی آنکھیں کھل گئی ہوں۔
اکبر صاحب کے یہاں ولیمے کی تیاری تھی۔ شامیانہ سج رہا تھا۔ اور باورچی کھانا پکانے کی تیاریوں میں مشغول تھا۔سنیچر حسب معمول برتن دھونے میں مصروف تھا کہ میری نظر اس پر پڑ گئی۔ اس کا ہاتھ بجلی کی طرح چل رہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ جلد از جلد کام ختم کرنا چاہتا ہے۔ چند منٹوں بعد وہ ہاتھ پونچھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
اکبر صاحب غصے میں بولے۔ ’’ارے سنیچر کہاں چلا‘‘؟
’’بابو آدھا گھنٹہ کی چھٹی دے دیجیے۔ ابھی آتے ہیں‘‘۔
’’لیکن کہاں؟ سب کام پڑا ہوا ہے‘‘۔
’’بابو کی بات .....ہم سب کام وقت سے ختم کر دیں گے۔ پانڈے جی کے بیٹا ہوا ہے نا۔ وہ آج داتا شاہ کے مجار پر مکھمل کی چادر چڑھاویں گے۔ ہم کو فاتحہ پڑھنا ہے‘‘۔ پھر بڑی لجاجت سے بولا۔ ’’مکھمل کی چادر کیسے چھوڑ دیں‘‘۔
جواب کا انتظار کیے بغیر وہ چلا گیا۔ میں نے استفہامیہ انداز میں ہارون کی طرف دیکھا۔ ہارون سنیچر پر اتھارٹی تھے۔
ارے آپ نہیں جانتے ؟ بڑا پرانا قصہ ہے۔ وہ بولے۔ روڈ نمبر سات پر جو منڈل صاحب رہتے ہیں نا انھوں نے ایک رات خواب دیکھا کہ کوئی بزرگ ان سے کہہ رہے ہیں کہ میں تمھارے مکان کی پشت پر لگے نیم کے پیڑ کے نیچے دفن ہوں۔ مجھے باہر نکالو۔ تمھاری مراد پوری ہوگی۔ دوسرے دن منڈل جی نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نیم کے پیڑ کے نیچے دس بارہ فٹ لمبی داتا شاہ کی قبر تیار ہو گئی۔ لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ پھول برسنے لگے۔ اللہ کی شان۔ منڈل جی لاولد تھے لیکن اب سال پورا ہوتے ہوتے ان کے یہاں بیٹا پیدا ہو گیا۔ پھر کیا تھا پورے علاقے کی عورتیں پھول اور چادر لے کر آنے لگیں۔ نیم کے درخت کی شاخیں لال پیلے نیلے کپڑوں کی دھجیوں سے بھر گئیں، جو ہر عورت منت مانگتے وقت باندھ جاتی تھی۔ منڈل جی بھی روز صبح اٹھ کر اشنان کرتے، تلسی پر جل چڑھاتے، چندن گھس کر ماتھے پر لگاتے، دیوی کی آرتی اُتارتے پھر سیدھے داتا شاہ کے مزار پر پہنچ جاتے۔ پھول چڑھاتے، پَرنام کرتے اوریوں ان کے دن کا آغاز ہوتا تھا۔ آس پاس کوئی اور نہ تھا جو فاتحہ پڑھ سکتا۔ اس لیے جب چادر چڑھانے اور فاتحہ پڑھنے کی بات ہوتی تو سنیچر کو خبر دی جاتی جو نزدیک ہی قبرستان کے ایک گوشے میں رہتا تھا۔ آج پانڈے جی کی منت پوری ہوئی تھی اور وہ مخمل کی چادر چڑھانے والے تھے۔ اسی لیے سنیچر بھاگ کر وہاں گیا تھا۔
ابھی ہم لوگ وہاں بیٹھے مرغوں اور بکروں کی تعداد میں جوڑ گھٹاؤ کر ہی رہے تھے کہ سنیچر خوشی خوشی واپس آتا دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھ میں مخمل کی چادر تھی اور ایک پوٹلی میں کچھ بندھا ہوا تھا۔ ہارون نے اسے دیکھتے ہی پکار کر کہا۔
’’کیا ملا سنیچر‘‘؟
’’مکھمل کی چادر ہے، سوا روپیہ، مٹھائی اور ناریل‘‘۔ سنیچر بولا۔
’’مگر یہ چادر تو مزار پر چڑھائی گئی تھی۔ تم کیوں لے آئے‘‘؟ ہارون نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
ہم بھی تو داتا کے گُلام ہیں۔ داتا کو مکھمل کی چادر سے کیا مطلب‘‘؟ سنیچر نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ بچوں کو مخمل کی قمیص بنوا دینا‘‘۔ ہارون نے ہمدردی سے کہا۔
’’بابو کی بات۔ ٹاٹ میں کہیں مکھمل لگے ہے۔ ہمارا بچہ مکھمل پہنے گا تو جندہ رہ سکے گا؟ ہم تو یہ چادر منّی لال کی دوکان پر بیچ دیں گے‘‘؟
’’بیچ دو گے؟ ارے منی لال کیا کرے گا اس کا‘‘؟ ہارون نے حیرت سے کہا۔
ان کی حیرت مصنوعی نہیں تھی۔
’’بابو کی بات ’’سنیچر تمسخر سے بولا۔ ’’منّی لال پھر کسی حاجتی کو بیچ دے گا۔ چادر پھر مزار پر چڑھے گی۔ ہم پھر اس کو لے آویں گے اور منّی لال کو بیچ دیں گے۔ ایسے ہی کاروبار چلے ہے بابو۔ ہر بار نیا کون خریدتا ہے‘‘؟ سنیچر ہم لوگوں کا مذاق بناتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
داتا شاہ کے کمالات جیسے جیسے مشتہر ہوتے گئے، لوگوں کا ہجوم بڑھتا گیا اورساتھ ساتھ سنیچر کا کاروبار بھی۔ اس نے مزار کے نزدیک ہی ایک جھونپڑی بنالی اور سیاہ کرتا پہن کر، داڑھی بڑھا کر گلے میں مالا ڈال کر سنیچر سے سنیچر شاہ بن گیا۔ معقول آمدنی نے سنیچر کی صحت بھی اچھی کر دی تھی۔ ایک دن میں نے مزار پر رکھی مٹھائی اور پھولوں کے دونے کے سامنے کھڑے سنیچر کو فاتحہ پڑھتے دیکھا۔ وہ آنکھیں بند کیے کچھ بُدبُدا رہا تھا اور زائرین ہاتھ باندھے سنیچر شاہ کے پیچھے کھڑے تھے۔
’’ہو گیا فاتحہ .....چراگی دے دو‘‘۔ اس نے مونہہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ اس کے پاس کھڑی عورت نے سنیچر شاہ کے ہاتھ پر ایک روپے کا نوٹ رکھ دیا۔ چار آنہ اور دیجیے۔ سوا روپیہ ہوتا ہے۔ سنیچر شاہ کا لہجہ تحکمانہ تھا۔ سنیچر اور سنیچر شاہ کا یہ فرق محسوس کر کے میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ عورت نے با دلِ نخواستہ ایک چونّی نکال کر اور دی۔ اُسے لے کر وہ پلٹا تو مجھے کھڑا دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا۔
’’سلام بابو‘‘۔
’’سلام .....کیسے ہو سنیچر‘‘؟
’’سب داتا کا کرم ہے بابو‘‘۔
’’ایک بات پوچھوں بُرا تو نہیں مانو گے‘‘؟میں نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔
’’ہاں ہاں پوچھئے بابو .....‘‘ وہ خندہ پیشانی سے بولا۔
’’تم فاتحہ کیسے پڑھتے ہو‘‘؟
’’بابو کی بات .....ہم کو پھاتحہ درود کیا معلوم۔ بس ہاتھ اٹھایا۔ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ داتا شاہ اللہ اللہ۔ تھوڑی دیر تک دُہرایا اور اللہ معاف کرے، کہہ کر مونہہ پرہاتھ پھیر لیا۔ بس ایسے ہی کام چلتا ہے بابو‘‘۔ وہ بڑے ہی معنی خیز انداز میں مسکرایا۔ پہلی بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ بہر حال مجھے ایک سکون کا احساس ہوا اور میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہوا۔ جہاں سیکڑوں قبریں کھودنے کے بعد بھی سنیچر کو بے فکری نہیں ملی تھی وہاں بغیر کھودے ایک ہی قبر نے اس کا مسئلہ حل کر دیا تھا .....قبروں اور قبروں میں بھی کتنا فرق ہے۔ موت بھی درجات کو نہیں مٹا پائی۔
اس روز شاید داتا شاہ کا عرس تھا۔ چاروں طرف چراغاں تھا اور زائرین کا ہجوم تھا۔ قوال گلا پھاڑ پھاڑ کر داتا شاہ کی شان میں منقبت پڑھ رہے تھے اورمزار کے سرہانے سنیچر شاہ ہاتھ اٹھا کر فاتحہ میں مصروف تھا۔ اس کے سامنے پیسوں کا ڈھیر لگا تھا۔ لوگ آتے جا رہے تھے اور مٹھائی اور پیسوں کے ڈھیر میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سنیچر شاہ کے چہرے پر زندگی کے بھرپور احساس کا نقش دیکھ کر مجھے مسرت ہو رہی تھی کہ اچانک ایک لڑکا آکر بولا۔
’’سنیچر شاہ، جنازہ آیا ہے۔ قبر کھودنے کو بلایا ہے‘‘۔
سنیچر کو جیسے بجلی کے تار نے چھو دیا۔ فاتحہ کے لیے اس کا اٹھا ہوا ہاتھ نیچے گر گیا اور وہ کھڑا ہوگیا۔ سامنے بیٹھی عورت چلانے لگی ’’ارے ہمارا پھاتحہ تو کر دو۔ چراگی بھی دے دیا ہے‘‘۔ مگر سنیچر کھڑا ہو چکا تھا۔ ’’لے جاؤ اپنا چراگی ہم کو کبر کھودنا ہے‘‘۔ وہ بڑے اعتماد سے بولا۔ اس کے بغل میں کھڑے ایک آدمی نے کہا ارے ابھی آمدنی کا وقت ہے مت جاؤ۔ آج کا دن سال بھر کے بعد آئے گا۔ مگر سنیچر نیچے اُتر چکا تھا۔
’’بابو کی بات، آمدنی کا دن ہے تو کا ہوا۔ کبر کھودنا ہمارا پھرج ہے۔ ہمارے باپ دادا کا پیشہ ہے۔ ہم ان کو کا مونہہ دکھاویں گے۔ کاروبار کے لیے ہم میت کو انتجار نہیں کرا سکتے‘‘۔
اس کی آنکھیں بے جان ہو گئی تھیں اور ان میں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ سنیچر شاہ سے وہ پھر سنیچر بن گیا تھا۔