شاداب الفت کی غزل

    ہماری آنکھ نے یوں بھی عذاب دیکھا تھا

    ہماری آنکھ نے یوں بھی عذاب دیکھا تھا کسی کی آنکھ سے بہتا جواب دیکھا تھا لبوں سے آپ کے گر کر بکھر گئی ہوگی ہر ایک شے پہ جو رنگ شراب دیکھا تھا ہمارے لمس نے جادو تمہارے رخ پہ کیا تبھی تو شیشے میں تم نے گلاب دیکھا تھا قریب آپ کے میں بھی کھڑا ہوا تھا کل وہی جو خاک میں لپٹا جناب دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    پھر اسی بت سے محبت چپ رہو

    پھر اسی بت سے محبت چپ رہو اور پھر اس پر شکایت چپ رہو چشم پر نم تھم کے اب میری سنو عشق میں یہ کیسی عجلت چپ رہو کوئی حسرت گر بکھر جائے بھی تو جان کر یا رب کی حکمت چپ رہو تبصرے ہوں ہجر پر یا وصل پر اب کہاں ہم کو ہے فرصت چپ رہو خطبۂ آخر میں سب سمجھا دیا کر دی قائم ہم نے الفت چپ ...

    مزید پڑھیے

    کر کے ساگر نے کنارے مسترد

    کر کے ساگر نے کنارے مسترد کر دئے اپنے سہارے مسترد شرمگیں نظروں نے اس کی کر دئے میری آنکھوں کے اشارے مسترد آپ کے آنچل میں سج کر جی اٹھے تھے فلک پر جو ستارے مسترد اس سے مل کر پھول شبنم چاندنی ہو گئے سب استعارے مسترد راہ دکھلا ہی نہ آئیں جو درست کر دئے جائیں ایسے تارے مسترد آپ ...

    مزید پڑھیے

    اب زمین و آسماں کے سب کناروں سے الگ

    اب زمین و آسماں کے سب کناروں سے الگ گڑھ رہا ہوں اپنی دنیا ان ستاروں سے الگ گرد میری اڑ رہی ہے چاند تاروں میں کہیں طرز اس نے پائی ہے سب خاکساروں سے الگ پتھروں کو آئنے میں قید کرنے کا ہنر راہ میں نے یہ نکالی ہے ہزاروں سے الگ چاند ہی اب تم کو کہہ کر بات کو پورا کروں کون ڈھونڈے لفظ ...

    مزید پڑھیے

    سجے ہیں ہر طرف بازار ایسا کیوں نہیں ہوتا

    سجے ہیں ہر طرف بازار ایسا کیوں نہیں ہوتا بکے اب تو غم لاچار ایسا کیوں نہیں ہوتا تمہارے اور میرے درمیاں پردہ ہے غفلت کا گرے کمبخت یہ دیوار ایسا کیوں نہیں ہوتا ابھی یوں ہی خیال آیا اگر وہ ظلم کرتا ہے تو پہنچے کیفر کردار ایسا کیوں نہیں ہوتا فرشتہ ہی چلا آئے اگر انساں نہیں آتا مرا ...

    مزید پڑھیے

    جان جوکھم سے کئے سر جو مراحل تو نے

    جان جوکھم سے کئے سر جو مراحل تو نے دو قدم دور تھی کیوں چھوڑ دی منزل تو نے دیکھ کمبخت مری جان پہ بن آئی ہے زندگی کر دئے پیچیدہ مسائل تو نے یہ سمندر تو ہے کم ظرف چھلک جاتا ہے کیا مجھے مان لیا اس کے مقابل تو نے تیری فطرت جو درندوں سی نظر آتی ہے کون سا رنگ کیا خون میں شامل تو نے پھنس ...

    مزید پڑھیے

    دکھ ذرا کیا ملا محبت میں

    دکھ ذرا کیا ملا محبت میں بس جھلکنے لگا عبارت میں کیسے کیسے سوال کرتا ہے ایک پاگل تری حراست میں کیوں نہیں ہو رہا اثر اس پر کیا بلوغت نہیں بلاغت میں لمس تیرا دوا تھا جینے کی میں تو مارا گیا شرافت میں ایسی عادت ہوئی اسیری کی چین پڑتا نہیں فراغت میں یہ جو ہذیان بک رہے ہو تم عشق ...

    مزید پڑھیے

    عادتاً مایوس اب تو شام ہے

    عادتاً مایوس اب تو شام ہے ہجر تو بس مفت ہی بدنام ہے آج پھر دھندلا گیا میرا خیال آج پھر الفاظ میں کہرام ہے الگنی پر ٹانگ کر دن کا لباس رات کو اب چین ہے آرام ہے نقص تعبیروں میں کیوں کرنا رہے خواب ہی جب کے ہمارا خام ہے مختلف شکلیں بنانا وقت کا بس یہی تو گردش ایام ہے اس فراق نا ...

    مزید پڑھیے