ابھی تک ان کے وہی ستم ہیں جفا کی خو بھی نہیں گئی ہے
ابھی تک ان کے وہی ستم ہیں جفا کی خو بھی نہیں گئی ہے وہ رنجشیں بھی نہیں گئی ہیں وہ گفتگو بھی نہیں گئی ہے نشیمن اپنا اٹھا نہ یاں سے خزاں جو آئی تو آئی بلبل بہار رخصت ابھی ہوئی ہے گلوں کی بو بھی نہیں گئی ہے گئی جوانی تو جائے دلبر مجھے ہے الفت ہنوز باقی وہ التجا بھی نہیں گئی ہے وہ ...