Shaayar Lakhnavi

شاعر لکھنوی

غیر روایتی شاعری کے لئے مشہور

Known for his novel expression in poetry

شاعر لکھنوی کی غزل

    اپنی طلب کا نام ڈبونے کیوں جائیں مے خانے تک

    اپنی طلب کا نام ڈبونے کیوں جائیں مے خانے تک تشنہ لبی کا اک دریا ہے شیشے سے پیمانے تک حسن و عشق کا سوز تعلق سمتوں کا پابند نہیں اکثر تو خود شمع کا شعلہ بڑھ کے گیا پروانے تک راہ طلب کے پیچ و خم کا اندازہ آسان نہیں اہل خرد کیا چیز ہیں رستہ بھول گئے دیوانے تک ساقی کو یہ خوش فہمی تھی ...

    مزید پڑھیے

    آنسو شعلوں میں ڈھل رہے ہیں

    آنسو شعلوں میں ڈھل رہے ہیں غم دل کی فضا بدل رہے ہیں گلشن ہے انہیں کا گل انہیں کے کانٹوں پہ جو ہنس کے چل رہے ہیں ایک ایک نفس میں روشنی ہے یادوں کے چراغ جل رہے ہیں چپ چپ سی ہے تلخیٔ زمانہ غم جام و سبو میں ڈھل رہے ہیں مٹ مٹ کے ابھر رہی ہے دنیا بجھ بجھ کے چراغ جل رہے ہیں اللہ رے ...

    مزید پڑھیے

    اک تبسم سے ہم نے روک لیے

    اک تبسم سے ہم نے روک لیے وار جتنے غم جہاں نے کیے کہہ رہے ہیں ہوا سے راز چمن کوئی غنچوں کے بھی تو ہونٹ سیے کیف کیا چیز ہے خمار ہے کیا یہ سمجھ کر شراب کون پیے ختم جب ہو گئیں تمنائیں ہم نئے حوصلوں کے ساتھ جیے رخ ہوا کا بدل گیا شاید گھر کے باہر بھی جل رہے ہیں دیے پھول خود ہو گئے ...

    مزید پڑھیے

    خواب سے آنکھ وہ مل کر جاگے

    خواب سے آنکھ وہ مل کر جاگے کتنے سوئے ہوئے منظر جاگے کس کی خاطر ہے پریشاں تری زلف ہم اسی فکر میں شب بھر جاگے تشنگی نے جو نچوڑا دامن کروٹیں لے کے سمندر جاگے سیکڑوں رنگ ہیں آنکھوں میں مگر ذہن میں ایک ہی پیکر جاگے خواب کا جشن منانے کے لیے لوگ سنتے ہیں کہ گھر گھر جاگے ہم نے کاغذ پہ ...

    مزید پڑھیے

    ہنسی لبوں پہ ہے دل میں شگفتگی تو نہیں

    ہنسی لبوں پہ ہے دل میں شگفتگی تو نہیں یہ اک لطیف سا دھوکہ ہے زندگی تو نہیں سمجھ رہا ہوں کہ اپنا بنا لیا ہے انہیں اسی کا نام محبت کی سادگی تو نہیں لگا رہا ہوں لبوں کی ہنسی سے اندازہ کہ میرے غم کی طلب میں کوئی کمی تو نہیں نفس نفس پہ یہ ہوتا ہے کیوں مجھے محسوس حیات تجھ سے الگ رہ کے ...

    مزید پڑھیے

    جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے

    جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے وہ نظر نظر سے گلے ملے تو بجھے چراغ بھی جل گئے یہ شکست دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2