اپنی طلب کا نام ڈبونے کیوں جائیں مے خانے تک
اپنی طلب کا نام ڈبونے کیوں جائیں مے خانے تک تشنہ لبی کا اک دریا ہے شیشے سے پیمانے تک حسن و عشق کا سوز تعلق سمتوں کا پابند نہیں اکثر تو خود شمع کا شعلہ بڑھ کے گیا پروانے تک راہ طلب کے پیچ و خم کا اندازہ آسان نہیں اہل خرد کیا چیز ہیں رستہ بھول گئے دیوانے تک ساقی کو یہ خوش فہمی تھی ...