Sehr Ishqabadi

سحر عشق آبادی

  • 1903 - 1978

سحر عشق آبادی کی غزل

    حسن مطلق ہے کیا کسے معلوم

    حسن مطلق ہے کیا کسے معلوم ابتدا انتہا کسے معلوم میری بیتابیوں کی کھا کے قسم برق نے کیا کیا کسے معلوم دن دہاڑے شباب کے ہاتھوں ہائے میں لٹ گیا کسے معلوم میری کچھ گرم و سرد آہوں سے آسماں کیا ہوا کسے معلوم حسن کا ہر خیال روشن ہے عشق کا مدعا کسے معلوم سحرؔ کے ہم نوا فرشتے ہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے

    ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے کہیں دست و گریباں ہو نہ آبادی بیاباں سے الٰہی جذبۂ دل کا اثر اتنا نہ ہو ان پر پریشاں وہ نہ ہو جائیں مرے حال پریشاں سے قیامت ہے وہ آئے اور آتے ہی ہوئے واپس یہ آثار سحر پیدا ہوئے شام غریباں سے نظر والے سمجھ جائیں نہ عرش و فرش کی نسبت ترا دامن ...

    مزید پڑھیے

    داور نے بندے بندوں نے داور بنا دیا

    داور نے بندے بندوں نے داور بنا دیا ساگر نے قطرے قطروں نے ساگر بنا دیا بیتابیوں نے دل کی بامید شرح شوق اس جاں نواز کو بھی ستم گر بنا دیا پہلی سی لذتیں نہیں اب درد عشق میں کیوں دل کو میں نے ظلم کا خوگر بنا دیا کیفیت شباب سے معذور کچھ ہوئے کچھ عاشقوں نے بھی انہیں خود سر بنا ...

    مزید پڑھیے

    جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا

    جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا حال کیوں پوچھیں بھلا وہ کسی سودائی کا محو ہے عکس دو عالم مری آنکھوں میں مگر تو نظر آتا ہے مرکز مری بینائی کا دونوں عالم رہے آغوش کشا جس کے لیے میں نے دیکھا ہے وہ عالم تری انگڑائی کا آئینہ دیکھ کر انصاف سے کہہ دے ظالم کیا مرا عشق ہے موجب مری ...

    مزید پڑھیے

    جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق

    جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق اوروں سے ارتباط کی اور مجھے دیا قلق تیری جفا وفا سہی میری وفا جفا سہی خون کسی کا بھی نہیں تو یہ بتا ہے کیا شفق مصحف رخ ہی درد تھا اور نہ تھا کوئی خیال عشق نے خود پڑھا دیا حسن کا ایک اک ورق اور تو ہیں روایتیں مذہب عشق ہے صحیح روز عطا ہو شوق ...

    مزید پڑھیے

    میری قسمت سے قفس کا یا تو در کھلتا نہیں

    میری قسمت سے قفس کا یا تو در کھلتا نہیں در جو کھلتا ہے تو بند بال و پر کھلتا نہیں آہ کرتا ہوں تو آتی ہے پلٹ کر یہ صدا عاشقوں کے واسطے باب اثر کھلتا نہیں ایک ہم ہیں رات بھر کروٹ بدلتے ہی کٹی ایک وہ ہیں دن چڑھے تک جن کا در کھلتا نہیں رفتہ رفتہ ہی نقاب اٹھے گی روئے حسن سے وہ تو وہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو فردوس نظر ہے آئینہ خانہ ابھی

    وہ جو فردوس نظر ہے آئینہ خانہ ابھی جلوہ گر جو وہ نہ ہوں ہو جائے ویرانہ ابھی شمع کی لو میں سما کر خود سراپا نور ہو دور رس اتنی نہیں پرواز پروانہ ابھی تیرا دیوانہ ہے اس کی رفعتوں کا ذکر کیا گرد کو جس کی نہ پہنچا کوئی فرزانہ ابھی ملتفت ہو کر نہ بخشیں اس طرح لبریز جام میری ہستی کا ...

    مزید پڑھیے

    رنگ اڑ کر رونق تصویر آدھی رہ گئی

    رنگ اڑ کر رونق تصویر آدھی رہ گئی غم غلط کرنے کی یہ تدبیر آدھی رہ گئی دیکھنے والوں کی آنکھوں سے نہاں اک رخ رہا پوری کھنچ کر بھی مری تصویر آدھی رہ گئی مجھ سے میعاد اسیری کیا کرو گے پوچھ کر دیدہ ور ہو جانچ لو زنجیر آدھی رہ گئی ہوش تھا وحشت میں تو صحرا نوردی کا مجھے بے خودی میں گردش ...

    مزید پڑھیے

    فرشتے بھی پہنچ سکتے نہیں وہ ہے مکاں اپنا

    فرشتے بھی پہنچ سکتے نہیں وہ ہے مکاں اپنا ٹھکانا ڈھونڈے دور زمیں و آسماں اپنا خدا جبار ہے ہر بندہ بھی مجبور و تابع ہے دو عالم میں نظر آیا نہ کوئی مہرباں اپنا نگاہ مضطرب پھر ڈھونڈتی ہے کس کو ہر شے میں زمین اپنی عزیز اپنے خدائے دو جہاں اپنا گزرنے کو تو گزرے جا رہے ہیں راہ ہستی ...

    مزید پڑھیے

    حسینوں کے تبسم کا تقاضا اور ہی کچھ ہے

    حسینوں کے تبسم کا تقاضا اور ہی کچھ ہے مگر کلیوں کے کھلنے کا نتیجہ اور ہی کچھ ہے نگاہیں مشتبہ ہیں میری پاکیزہ نگاہوں پر مرے معصوم دل پر ان کو دھوکا اور ہی کچھ ہے حسینوں سے محبت ہے انہیں پر جان دیتا ہوں مرا شیوہ ہے یہ لیکن زمانا اور ہی کچھ ہے بھلا کیا ہوش آئے گا بجھے گی کیا لگی دل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2