Sehr Ishqabadi

سحر عشق آبادی

  • 1903 - 1978

سحر عشق آبادی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    حسن مطلق ہے کیا کسے معلوم

    حسن مطلق ہے کیا کسے معلوم ابتدا انتہا کسے معلوم میری بیتابیوں کی کھا کے قسم برق نے کیا کیا کسے معلوم دن دہاڑے شباب کے ہاتھوں ہائے میں لٹ گیا کسے معلوم میری کچھ گرم و سرد آہوں سے آسماں کیا ہوا کسے معلوم حسن کا ہر خیال روشن ہے عشق کا مدعا کسے معلوم سحرؔ کے ہم نوا فرشتے ہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے

    ترا وحشی کچھ آگے ہے جنون فتنہ ساماں سے کہیں دست و گریباں ہو نہ آبادی بیاباں سے الٰہی جذبۂ دل کا اثر اتنا نہ ہو ان پر پریشاں وہ نہ ہو جائیں مرے حال پریشاں سے قیامت ہے وہ آئے اور آتے ہی ہوئے واپس یہ آثار سحر پیدا ہوئے شام غریباں سے نظر والے سمجھ جائیں نہ عرش و فرش کی نسبت ترا دامن ...

    مزید پڑھیے

    داور نے بندے بندوں نے داور بنا دیا

    داور نے بندے بندوں نے داور بنا دیا ساگر نے قطرے قطروں نے ساگر بنا دیا بیتابیوں نے دل کی بامید شرح شوق اس جاں نواز کو بھی ستم گر بنا دیا پہلی سی لذتیں نہیں اب درد عشق میں کیوں دل کو میں نے ظلم کا خوگر بنا دیا کیفیت شباب سے معذور کچھ ہوئے کچھ عاشقوں نے بھی انہیں خود سر بنا ...

    مزید پڑھیے

    جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا

    جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا حال کیوں پوچھیں بھلا وہ کسی سودائی کا محو ہے عکس دو عالم مری آنکھوں میں مگر تو نظر آتا ہے مرکز مری بینائی کا دونوں عالم رہے آغوش کشا جس کے لیے میں نے دیکھا ہے وہ عالم تری انگڑائی کا آئینہ دیکھ کر انصاف سے کہہ دے ظالم کیا مرا عشق ہے موجب مری ...

    مزید پڑھیے

    جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق

    جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق اوروں سے ارتباط کی اور مجھے دیا قلق تیری جفا وفا سہی میری وفا جفا سہی خون کسی کا بھی نہیں تو یہ بتا ہے کیا شفق مصحف رخ ہی درد تھا اور نہ تھا کوئی خیال عشق نے خود پڑھا دیا حسن کا ایک اک ورق اور تو ہیں روایتیں مذہب عشق ہے صحیح روز عطا ہو شوق ...

    مزید پڑھیے

تمام