Seema Sharma Sarhad

سیما شرما سرحد

سیما شرما سرحد کی غزل

    جس کو لگتا ہے گمشدہ ہوں میں

    جس کو لگتا ہے گمشدہ ہوں میں جان لے مجھ کو زلزلہ ہوں میں میں بچاتی ہوں بد دعاؤں سے ماں کی بھیجی ہوئی دعا ہوں میں کھو گیا جو گھنے اندھیروں میں اس اجالے کا راستہ ہوں میں مجھ کو پہچان میرے ناز اٹھا تیرا اپنوں سے رابطہ ہوں میں نفرتوں نے دیے ہیں جو تم کو ایسے ہر درد کی دوا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    انہیں اب کوئی آئنا دیجئے

    انہیں اب کوئی آئنا دیجئے ذرا اصلی صورت دکھا دیجئے بٹھائے ہیں پہرے بہت آپ نے زباں پہ بھی تالا لگا دیجئے وچاروں سے ہی وہ تو بیمار ہیں کوئی سوچ کی اب دوا دیجئے سزا ہی سہی کچھ تو دے جائیے وفاؤں کا اب تو صلہ دیجئے جو انساں سے انساں کو واقف کرے ہمیں کوئی ایسا خدا دیجئے محبت ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    راستے منزلوں کے بنی زندگی

    راستے منزلوں کے بنی زندگی تو کبھی راستے میں ملی زندگی ریت سی مٹھیوں سے پھسلتی رہی قطرہ قطرہ پگھلتی رہی زندگی اس زمانہ کو پیغام دے جائے گی چاہے اچھی ہو یا پھر بری زندگی میری رہبر بھی ہے میری ہم راز بھی دے رہی ہے نصیحت تبھی زندگی ہر طرف ڈھیر لاشوں کے دکھنے لگے حادثوں میں بنی ...

    مزید پڑھیے

    آپ کی آنکھوں کا تارہ اور ہے

    آپ کی آنکھوں کا تارہ اور ہے کیا ہوا میرا سہارا اور ہے اک ندی کے دو کناروں کی طرح راستہ میرا تمہارا اور ہے جانے اب کیسی خبر یہ لائیں گی ان ہواؤں کا اشارہ اور ہے آپ مرہم ہی لگاتے رہ گئے کیا کہیں یہ درد سارا اور ہے آپ کی بدلی نگاہیں کہہ رہیں اب نہیں میرا گزارا اور ہے پوچھنے والوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو عادت قسم نبھانے کی

    ہم کو عادت قسم نبھانے کی ان کی فطرت ہے بھول جانے کی سر جھکا کر میں کیوں نہیں جیتی بس شکایت یہی زمانے کی اس کی شرطوں پہ مجھ کو ہے جینا کیسی دیوانگی دوانے کی اس کو نفرت ہے یا محبت ہے پھر ضرورت ہے آزمانے کی بعد مرنے کے لے کے جاؤں گی آرزو اپنے آشیانے کی میں تو یوں بھی سلگ رہی ...

    مزید پڑھیے

    اڑے ہیں ہوش میرے اس خبر سے

    اڑے ہیں ہوش میرے اس خبر سے نہیں ہے واسطہ اب تیرے در سے ابھی کتنی سزائیں اور دے گا نہ مر جاؤں کہیں میں تیرے ڈر سے بہت باقی ہے برسوں کا تقاضہ ذرا تم لوٹ کے آؤ سفر سے بھروسے کے یہاں ہے کون قابل بشر بہتر کہاں ہے جانور سے مجھے جینا ہے ان بچوں کی خاطر نکلنا ہے خیالوں کے بھنور سے بھلا ...

    مزید پڑھیے