ہمارے جسم نے جس جسم کو بلایا ہے
ہمارے جسم نے جس جسم کو بلایا ہے وہ روح بن کے کھڑا دور مسکرایا ہے پتا چلا کبھی شہر انا وہیں پر تھا جہاں کھنڈر پہ نیا شہر اب بسایا ہے حیات ناؤ ہے کاغذ کی بارہا جس پر اڑایا آندھیوں نے سیل نے بہایا ہے جس آئنہ پہ دھندلکوں نے کھینچ دی چلمن اسی نے عکس ہمارا ہمیں دکھایا ہے کوئی کھڑا ہے ...