Sarshaar buland Shahri

سرشار بلند شہری

  • 1928

سرشار بلند شہری کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    جلوہ چاروں اور تھا

    جلوہ چاروں اور تھا بیچ میں اک مور تھا سیدھا سادا آدمی برتا تو چوکور تھا دہراؤں الفاظ کو آوازوں کا شور تھا مرضی اس کی چھوڑیئے اپنا کوئی زور تھا آنکھوں میں کیوں خوف تھا دل میں کوئی چور تھا میں دلی میں منتظر وہ پاپی لاہور تھا

    مزید پڑھیے

    اب موت سے بچائے کہاں زیست کیا مجال

    اب موت سے بچائے کہاں زیست کیا مجال پھیلے ہوئے ہیں جسم میں نیلی رگوں کے جال یوں تو نہیں کہ عمر گنوائی ہے دھوپ میں پھبتی سی کس رہے ہیں یہ سر کے سفید بال مہلت کسے ملے ہے یہاں لب کشائی کی آنکھوں میں ناچ ناچ کے تھکتے رہے سوال ملبوس تو بدن سے کبھی کا اتر چکا تب لطف آئے جسم سے کھنچ جائے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی گل کے کبھی گلزار کے بوسے

    کبھی گل کے کبھی گلزار کے بوسے جبیں کے چشم کے رخسار کے بوسے لہو کی سرخیوں میں پے بہ پے ہمدم مہکتے ہیں تری دیوار کے بوسے لہو کی سرکشی میرا مقدر ہے مجھے مرغوب ہیں تلوار کے بوسے فلک تکتا رہا حیرت سے اس کا منہ زمیں لیتی رہی رفتار کے بوسے ہوا میں سر بسر اعجاز ہے کوئی خلا میں ثبت ہیں ...

    مزید پڑھیے