Sarshaar buland Shahri

سرشار بلند شہری

  • 1928

سرشار بلند شہری کی غزل

    جلوہ چاروں اور تھا

    جلوہ چاروں اور تھا بیچ میں اک مور تھا سیدھا سادا آدمی برتا تو چوکور تھا دہراؤں الفاظ کو آوازوں کا شور تھا مرضی اس کی چھوڑیئے اپنا کوئی زور تھا آنکھوں میں کیوں خوف تھا دل میں کوئی چور تھا میں دلی میں منتظر وہ پاپی لاہور تھا

    مزید پڑھیے

    اب موت سے بچائے کہاں زیست کیا مجال

    اب موت سے بچائے کہاں زیست کیا مجال پھیلے ہوئے ہیں جسم میں نیلی رگوں کے جال یوں تو نہیں کہ عمر گنوائی ہے دھوپ میں پھبتی سی کس رہے ہیں یہ سر کے سفید بال مہلت کسے ملے ہے یہاں لب کشائی کی آنکھوں میں ناچ ناچ کے تھکتے رہے سوال ملبوس تو بدن سے کبھی کا اتر چکا تب لطف آئے جسم سے کھنچ جائے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی گل کے کبھی گلزار کے بوسے

    کبھی گل کے کبھی گلزار کے بوسے جبیں کے چشم کے رخسار کے بوسے لہو کی سرخیوں میں پے بہ پے ہمدم مہکتے ہیں تری دیوار کے بوسے لہو کی سرکشی میرا مقدر ہے مجھے مرغوب ہیں تلوار کے بوسے فلک تکتا رہا حیرت سے اس کا منہ زمیں لیتی رہی رفتار کے بوسے ہوا میں سر بسر اعجاز ہے کوئی خلا میں ثبت ہیں ...

    مزید پڑھیے