پھر ایسا موڑ اس قصے میں آیا

پھر ایسا موڑ اس قصے میں آیا
میں صدیاں گھوم کر لمحے میں آیا


مرا رستہ کسی جنگل سے گزرا
کہ خود جنگل مرے رستے میں آیا


کسی کے عرش پر ہونے کا دعویٰ
سمجھ اک شب مجھے نشے میں آیا


میں اپنے گھر بڑی مدت سے کے بعد آج
کسی مہمان کے دھوکے میں آیا


ترا کردار چلتے پھرتے اک دن
مری روداد کے کوچے میں آیا


یونہی اک دن ہجوم خال و خد میں
نظر خود کو وہ آئینے میں آیا


منڈیروں سے اتر کر خوف کوئی
دبے پاؤں مرے کمرے میں آیا