لڑکھڑاتا ہوں کبھی خود ہی سنبھل جاتا ہوں
لڑکھڑاتا ہوں کبھی خود ہی سنبھل جاتا ہوں میں بھی رستوں کے ہی برتاؤ میں ڈھل جاتا ہوں منتیں مجھ سے کیا کرتے ہیں دریا آ کر اور میں پیاس چھپا کر کے نکل جاتا ہوں دن وراثت میں مجھے روشنی دے جاتا ہے وہ دیا ہوں کہ سر شام ہی جل جاتا ہوں چاک پہ آ کے نہیں چلتی ہے مرضی میری یہ بہت ہے جو کسی ...