سرفراز نواز کی غزل

    نظر بھی آیا تو خود سے چھپا لیا میں نے

    نظر بھی آیا تو خود سے چھپا لیا میں نے یہ کون ہے جسے اپنا بنا لیا میں نے تمہارا لمس چھپا ہے بدن کی پرتوں میں چھوا جو خود کو لگا تم کو پا لیا میں نے اسی کے سامنے جو رحمتوں کا مالک ہے شکایتوں کو دعا میں ملا لیا میں نے نہ کچھ دوا کی ضرورت نہ چارہ گر کی تلاش یہ روگ کون سا دل کو لگا لیا ...

    مزید پڑھیے

    ایک رستے کی کہانی جو سنی پانی سے

    ایک رستے کی کہانی جو سنی پانی سے ہم بھی اس بار نہیں بھاگے پریشانی سے میری بے جان سی آنکھوں سے ڈھلکتے آنسو آئینہ دیکھ رہا ہے بڑی حیرانی سے میرے اندر تھے ہزاروں ہی اکیلے مجھ سے میں نے اک بھیڑ نکالی اسی ویرانی سے مات کھائے ہوئے تم بیٹھے ہو دانائی سے جیت ہم لے کے چلے آئے ہیں نادانی ...

    مزید پڑھیے

    بلا سے نام وہ میرا اچھال دیتا ہے

    بلا سے نام وہ میرا اچھال دیتا ہے مگر جو زہر ہے دل کا نکال دیتا ہے بہت قریب ہے میرے بہت قریب ہے وہ کوئی کسی کو یونہی کب ملال دیتا ہے میں سوتا رہتا ہوں اور جانے کب خدا میرا اندھیری رات کو سورج میں ڈھال دیتا ہے ہم اپنے خواب جو آنکھوں میں لا کے رکھتے ہیں اجازتیں ہمیں اس کی خیال دیتا ...

    مزید پڑھیے

    یوں اڑاتی ہے جو ہوا مجھ کو

    یوں اڑاتی ہے جو ہوا مجھ کو پہلے ہلکا بہت کیا مجھ کو مدتوں سے یہاں مقفل ہوں آ کبھی آ کے کھٹکھٹا مجھ کو آخری وقت آ گیا ہے کیا دے رہے ہیں سبھی دعا مجھ کو تجھ تک آنے کبھی نہیں دے گا میرے حصے کا دائرہ مجھ کو روزمرہ کی اس کہانی میں کوئی کردار تو بنا مجھ کو عشق ادب ہے تو اپنے آپ آئے گر ...

    مزید پڑھیے

    ترے خلوص کے قصے سنا رہا ہوں میں

    ترے خلوص کے قصے سنا رہا ہوں میں پرانا قرض ہے اب تک چکا رہا ہوں میں خدا کرے کہ وہی بات اس کے دل میں ہو جو بات کہنے کی ہمت جٹا رہا ہوں میں سفر کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا میرا رکے جو پاؤں تو کاندھوں پہ جا رہا ہوں میں سماعتوں کے سبھی در یہاں مقفل ہیں نہ جانے کب سے صدائیں لگا رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    موسموں والے نئے دانہ و پانی والے

    موسموں والے نئے دانہ و پانی والے ہم وہی لوگ وہی نقل مکانی والے ہاں بچا لیں گے یہی شہر کو جل جانے سے کچھ تو باقی ہیں ابھی شہر میں پانی والے رنگ کیا خوب جمے گا جو کبھی مل بیٹھیں اور کچھ لوگ طبیعت کی روانی والے اس لئے اور بھلا دیتا ہوں وعدے اکثر مجھ کو ملتے ہی نہیں یاد دہانی ...

    مزید پڑھیے

    یہ میں نے مانا کہ پہرہ ہے سخت راتوں کا

    یہ میں نے مانا کہ پہرہ ہے سخت راتوں کا یہیں سے نکلے گا پھر قافلہ چراغوں کا یوں خوشبوؤں میں ڈبوئے ہوئے رکھوں کب تک گناہ کیوں نہ میں کر لوں قبول ہاتھوں کا چراغ پا ہے مری نیند ان دنوں مجھ سے میں کوئی شہر بسانے لگا تھا خوابوں کا ہرن سی چوکڑی بھرنے لگے گی ہر دھڑکن جو ذکر چھیڑ دوں اس ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو ہونا ہے تو درویش کے جیسا ہو جاؤں

    مجھ کو ہونا ہے تو درویش کے جیسا ہو جاؤں منزلیں سب کے لئے اور میں رستہ ہو جاؤں کتنا دشوار ہے اک لمحہ بھی اپنا ہونا اس کو ضد ہے کہ میں ہر حال میں اس کا ہو جاؤں میں نے آنکھوں کو تری غور سے دیکھا ہے بہت یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ میں اندھا ہو جاؤں جو حرارت ہے بدن میں وہ ترے لمس کی ہے تو ...

    مزید پڑھیے

    دیئے نگاہوں کے اپنی بجھائے بیٹھا ہوں

    دیئے نگاہوں کے اپنی بجھائے بیٹھا ہوں تجھے میں کتنے دنوں سے بھلائے بیٹھا ہوں مرے لئے ہی دھڑکتا ہے کائنات کا دل کہاں اکیلا کوئی بوجھ اٹھائے بیٹھا ہوں غبار راہ اڑے تو کوئی امید جگے میں کب سے راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھا ہوں ہنر جو خواب چرانے کا میں نے سیکھا ہے یہاں پہ کتنوں کی ...

    مزید پڑھیے

    کسے خبر تھی کہ اس کو بھی ٹوٹ جانا تھا

    کسے خبر تھی کہ اس کو بھی ٹوٹ جانا تھا ہمارا آپ سے رشتہ بہت پرانا تھا ہم اپنے شہر سے ہو کر اداس آئے تھے تمہارے شہر سے ہو کر اداس جانا تھا صدا لگائی مگر کوئی بھی نہیں پلٹا ہر ایک شخص نہ جانے کہاں روانہ تھا یوں چپ ہوا کہ پھر آنکھیں ہی ڈبڈبا اٹھیں نہ جانے اس کو ابھی اور کیا بتانا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2