سلیم شہزاد کی غزل

    لگتا ہے وہ آج خواب جیسا

    لگتا ہے وہ آج خواب جیسا اک شخص کھلی کتاب جیسا کیا اس میں ہے موج آب جیسا بے لمس ہے وہ سراب جیسا ہر شخص پہ سانپ رینگتا ہے ہے زور ہوس عذاب جیسا ہر شخص کو رنج نا تمامی قصے کے ادھورے باب جیسا باتوں میں ہے اس کی زہر تھوڑا تھوڑا سا مزا شراب جیسا میں عکس ہوں اور آئینہ وہ رشتہ ہے سراب و ...

    مزید پڑھیے

    ریت پر مجھ کو گماں پانی کا تھا

    ریت پر مجھ کو گماں پانی کا تھا صبر میرا امتحاں پانی کا تھا سب جنون و عزم کاغذ کشتیاں سامنا جب بے کراں پانی کا تھا سنگ صحرا میں تھی دریا کی نمود سنگ صحرا میں زیاں پانی کا تھا یوں ملی سیلاب میں جائے پناہ سر پہ میرے سائباں پانی کا تھا آگ بھی برسی درختوں پر وہیں کال بستی میں جہاں ...

    مزید پڑھیے

    کسی رت میں جب مسکراتا ہے تو

    کسی رت میں جب مسکراتا ہے تو نمو پتھروں میں جگاتا ہے تو ترا شعلۂ نطق روح رواں افق تا افق پھیل جاتا ہے تو کبھی کھولتا ہے سمندر کے راز کبھی ایک قطرہ چھپاتا ہے تو کبھی غرق کر دے سفینے ہزار کبھی ایک کشتی تراتا ہے تو کبھی پھونک دے وادئ گل تمام کبھی آگ میں گل کھلاتا ہے تو کبھی شرح ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2