سلیم شہزاد کی غزل

    رنگ تعبیر کا ٹوٹے ہوئے خوابوں میں نہیں

    رنگ تعبیر کا ٹوٹے ہوئے خوابوں میں نہیں چھاؤں کا لمس کہیں جیسے سرابوں میں نہیں کر دیا ساحر تہذیب نے پتھر ان کو چہرے لمحوں کے وہ ریشم کی نقابوں میں نہیں آ کے ساحل پہ ہوس کے نہ یوں موجوں سے ڈرو رنگ گہرائی میں پاؤ گے حبابوں میں نہیں انگ انگ اس کا تھا اک نیلے نشے میں ڈوبا ابدی کیف وہ ...

    مزید پڑھیے

    ہاں کہیں جگنو چمکتا تھا چلو واپس چلو

    ہاں کہیں جگنو چمکتا تھا چلو واپس چلو ان سرنگوں میں اندھیرا ہے تو ہو واپس چلو ہم کو ہر اندھے کی فہم منزلت کا ہے شعور کہہ رہا ہے قافلے والوں سے جو واپس چلو اس طرف کے قہقہوں کا راز کچھ کھلتا نہیں اس لئے اپنے ہی ماتم زار کو واپس چلو واپسی کے راستے مسدود ہو جانے سے قبل کس لئے تم ہو ...

    مزید پڑھیے

    پھر نہ آئے گا یہ لمحہ سوچ لے

    پھر نہ آئے گا یہ لمحہ سوچ لے سامنے بہتا ہے دریا سوچ لے کشتیوں کو پھونک کر آگے نہ بڑھ ڈوب جائے گا جزیرہ سوچ لے دیکھ کر اس کو نہتا خوش نہ ہو تجربہ پہلا ہے تیرا سوچ لے اپنے شیشے کے پروں کا کر خیال رخ نہیں اچھا ہوا کا سوچ لے رشتۂ آب و سراب اک خواب ہے تو بھی سایہ میں بھی سایہ سوچ ...

    مزید پڑھیے

    شہریاروں نے دکھائیں مجھ کو تصویریں بہت

    شہریاروں نے دکھائیں مجھ کو تصویریں بہت تیری بستی تک ملیں رستے میں جاگیریں بہت نذر آتش کر رہے ہو آج پر کل دیکھنا ان صحیفوں کی لکھی جائیں گی تفسیریں بہت آج بھی میرے لئے مشکوک ہے تیرا لگاؤ پتھروں پہ نقش دیکھیں میں نے تحریریں بہت سات رنگوں میں بٹی ہو جیسے سورج کی کرن خواب دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    صدیوں کے رنگ و بو کو نہ ڈھونڈو گپھاؤں میں

    صدیوں کے رنگ و بو کو نہ ڈھونڈو گپھاؤں میں آؤ کسی سے پوچھو پتہ ان کا گاؤں میں گھبرا کے بلبلے نے سمندر کی ذات سے پھیلا دیا وجود کو ساری دشاؤں میں آواز خود کو دو تو ملے کچھ جواب بھی آخر پکارتے ہو کسے تم خلاؤں میں ڈھونڈو تو دیوتاؤں کے آدرش ہیں بہت پر آدمی کا رنگ کہاں دیوتاؤں ...

    مزید پڑھیے

    بال و پر ہوں تو فضا کافی ہے

    بال و پر ہوں تو فضا کافی ہے ورنہ پرواز انا کافی ہے ہم گماں گشت پرندوں کے لیے آسماں بھی ہو تو ناکافی ہے اس خدائی سے نہیں کوئی غرض ہم کو بس نام خدا کافی ہے یہ جو اک حرف دعا ہے لب پر نارسا ہو کہ رسا کافی ہے کچھ نہیں ذات کے صحرا میں مگر منتشر ہونے کو جا کافی ہے زرد پتے میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    یقین ہے کہ وہ میری زباں سمجھتا ہے

    یقین ہے کہ وہ میری زباں سمجھتا ہے مگر زباں کے اشارے کہاں سمجھتا ہے فراز دار کو جو آسماں سمجھتا ہے اسے بھی کب یہ علوئے مکاں سمجھتا ہے اسے پتا ہے کہ رکتی نہیں ہے چھانو کبھی تو پھر وہ ابر کو کیوں سائباں سمجھتا ہے طلسم خواب ہوا پاش پاش کب کا مگر حقیقتوں کو وہ پرچھائیاں سمجھتا ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ہے کوئی دوسرا منظر چاروں اور

    نہیں ہے کوئی دوسرا منظر چاروں اور پھیلا ہے تاریک سمندر چاروں اور زندہ ہوں بس ایک یہی ہے میرا جرم لوگ کھڑے ہیں لے کر پتھر چاروں اور کس دریا کو ڈھونڈے یہ جنموں کی پیاس آگ لگی ہے میرے اندر چاروں اور وہم و خرد کے مارے ہیں شاید سب لوگ دیکھ رہا ہوں شیشے کے گھر چاروں اور چھوٹے سے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا

    ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا وہ اک زخمی پرندے کی طرح تھا کبھی ہنگامہ زا تھا بے سبب وہ کبھی گونگے تماشے کی طرح تھا کھلونوں کی نمائش تھی جہاں وہ کسی گم گشتہ بچے کی طرح تھا سنبھلتا کیا کہ سر سر سیل میں وہ اکھڑتے گرتے خیمے کی طرح تھا اگلتا بلبلے پھول اور شعلے وہ چابی کے کھلونے کی ...

    مزید پڑھیے

    رہا وہ شہر میں جب تک بڑا دبنگ رہا

    رہا وہ شہر میں جب تک بڑا دبنگ رہا مگر خود اپنے خلاف آپ محو جنگ رہا ہوئی جو صبح تو بے برگ و بار تھے اشجار تمام رات ہوا کا عجیب رنگ رہا انا پسند تھا بیساکھیوں کو چھوتا کیوں رہا وہ سرکش و باغی مگر اپنگ رہا بجز دردید و برید اور کیا ہے اس کا مآل وہ پھر بھی ڈور سے ٹوٹی ہوئی پتنگ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2