Salahuddin Nadeem

صلاح الدین ندیم

صلاح الدین ندیم کی غزل

    جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے

    جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے ملا وہ اختیار آخر کہ ہم تنہا ہوئے خود سے تہ آب دل و جاں موتیوں کی طرح رہتے ہیں جو منظر اس جہان خاک میں پیدا ہوئے خود سے چھپا لیتے تری صورت ہم اپنی آنکھ میں دل میں لب گویا کے ہاتھوں کس لئے رسوا ہوئے خود سے اڑی وہ خاک دل صورت نظر آتی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جب سے اپنے آپ کو پہچانتا ہوں میں

    جب سے اپنے آپ کو پہچانتا ہوں میں پردے میں ہر لباس کے عریاں ہوا ہوں میں مجھ سے ملو کہ میں ہوں زمانے کی روشنی ظلمت میں آفتاب کی صورت پڑا ہوں میں آنکھیں بھی ہوں تو دیکھنا آساں نہیں مجھے تابانیوں کی کہر میں ڈوبا ہوا ہوں میں اب اپنی شکل ڈھونڈھتا پھرتا ہوں چار سو طوفان صد نگاہ میں گم ...

    مزید پڑھیے

    رہ گیا انساں اکیلا بستیوں کے درمیاں

    رہ گیا انساں اکیلا بستیوں کے درمیاں گم ہوا سورج خود اپنی تابشوں کے درمیاں ہاتھ لگتے ہی بکھر جاتے ہیں رنگوں کی طرح پھول سے پیکر سمے کی آندھیوں کے درمیاں روح کی اندھی گلی میں چیختا ہے رات دن جسم کا زخمی پرندہ خواہشوں کے درمیاں بن گیا زنجیر میرے پاؤں کی میرا وجود قید ہے دریا بھی ...

    مزید پڑھیے

    جس کو دیکھو وہی آوارہ و سودائی ہے

    جس کو دیکھو وہی آوارہ و سودائی ہے زندگی ہے کہ کسی دشت کی پہنائی ہے شعلۂ غم کو رگ جاں میں کیا جذب تو پھر ہر نظر صورت خورشید نظر آئی ہے ڈوب کر دل میں ابھرتی ہے کوئی موج خیال ابر چھایا ہے کبھی برق سی لہرائی ہے گیت کے روپ میں پابند بہاروں کی فضا چمن دل میں مرے اور نکھر آئی ہے لذت ...

    مزید پڑھیے

    گھر کی دیواروں کو ہم نے اور اونچا کر لیا

    گھر کی دیواروں کو ہم نے اور اونچا کر لیا شور صد محشر سنا اور خود کو بہرا کر لیا بند نافہ کی طرح رہتے ہیں اپنے آپ میں اپنی خوشبو سے معطر دل کا صحرا کر لیا درد مہجوری کا آئینہ ہے اپنے روبرو جب نظر آیا نہ تو اپنا تماشا کر لیا در پہ ہر امید کے پھیلا دیا دامان دل کج کلاہ زندگی نے خود ...

    مزید پڑھیے

    ابر کا ٹکڑا ہو جیسے چاند پر ٹھہرا ہوا

    ابر کا ٹکڑا ہو جیسے چاند پر ٹھہرا ہوا یوں ترے مکھڑے پہ زلفوں کا گھنا سایہ ہوا قرب کی لذت سے آنکھوں میں گھٹا سی چھا گئی اور یہ دل ہے شرابی کی طرح بہکا ہوا دل سمجھتا ہے تری رفتار کے اسلوب کو تو ابھی آیا نہیں اور حشر سا برپا ہوا آشنائی کی ہوا دل کے چمن میں کیا چلی ہر گل منظر نظر آیا ...

    مزید پڑھیے

    غم کی بے پناہی میں دل نے حوصلہ پایا

    غم کی بے پناہی میں دل نے حوصلہ پایا تیرگی کے جنگل میں چشمۂ ضیا پایا آفتاب کا پیکر بن گیا بدن اپنا روشنی میں سائے کا سحر ٹوٹتا پایا کھل گئی جو آنکھ اپنی وقت کی صدا سن کر ان گنت جہانوں کا در کھلا ہوا پایا ہر قدم پہ ساتھ اپنے خود کو دیکھتے ہیں ہم ہم سفر کوئی اپنا اب نہ دوسرا ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے

    دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنی بھی اڑی ہے گرد کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے یہ کالی رات کا دریا بہا کر لے گیا سورج ہراساں صبح کے ساحل پہ دل تاریکیوں سے ہے مہکتے پھول بھی ڈسنے لگے ہیں سانپ کی ...

    مزید پڑھیے

    زخم سینے پہ لگا آنکھ سے آنسو نکلے

    زخم سینے پہ لگا آنکھ سے آنسو نکلے غم کی آہٹ سے کئی درد کے آہو نکلے حلقۂ ریگ رواں دشت کے دریا کا بھنور وحشت دل کے سفینے میں اگر تو نکلے بد گمانی کی نگاہوں سے جو دیکھا ہے تجھے تیری ہر بات میں سو طرح کے پہلو نکلے مہک اٹھے یہ بیاباں بھی گلستاں کی طرح قید گلزار سے آزاد جو خوشبو ...

    مزید پڑھیے

    لفظ ناگن کی طرح ڈستے ہیں گویائی میں

    لفظ ناگن کی طرح ڈستے ہیں گویائی میں خامشی زہر ملا دیتی ہے تنہائی میں دل کی باتوں کو زباں پر نہیں آنے دیتے کتنی زنجیریں نظر آتی ہیں یکجائی میں ٹھہرے پانی میں گرا سنگ روانی کوئی چاہیے تازہ ہوا روح کی گہرائی میں کیا نظر آئے گا موسم کے نشے میں تجھ کو کتنے پتے ہیں کہ اڑ جاتے ہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2