جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے
جدا کیا ہو گئے تم سے نہ پھر یکجا ہوئے خود سے ملا وہ اختیار آخر کہ ہم تنہا ہوئے خود سے تہ آب دل و جاں موتیوں کی طرح رہتے ہیں جو منظر اس جہان خاک میں پیدا ہوئے خود سے چھپا لیتے تری صورت ہم اپنی آنکھ میں دل میں لب گویا کے ہاتھوں کس لئے رسوا ہوئے خود سے اڑی وہ خاک دل صورت نظر آتی نہیں ...