سجاد سلیم کی غزل

    اپنے ہی کسی خواب سے باہر نہیں نکلے

    اپنے ہی کسی خواب سے باہر نہیں نکلے وہ عکس جو تالاب سے باہر نہیں نکلے ہم وصل کی جھلمل سے نکل آئے تھے لیکن ہجراں کی تب و تاب سے باہر نہیں نکلے اس شہر کے ساحل پہ تماشا تو دکھاتا بیڑے میرے گرداب سے باہر نہیں نکلے مرتے رہے جگنو مری تاریک گلی کے تم حلقۂ مہتاب سے باہر نہیں نکلے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    وہ پیاس کی اب بھیج گھٹا چاروں طرف سے

    وہ پیاس کی اب بھیج گھٹا چاروں طرف سے اے میرے خدا میرے خدا چاروں طرف سے میں نے تو پکارا تھا کسی ایک ہی جانب کیوں لوٹ کے آئی ہے صدا چاروں طرف سے گرنا ہے مگر یوں تو نہیں تم سے گروں گا یلغار کرو مجھ پہ ذرا چاروں طرف سے ہو جاتی ہے جب ریت پہ تصویر مکمل آ جاتی ہے پھر تیز ہوا چاروں طرف ...

    مزید پڑھیے