وہ پیاس کی اب بھیج گھٹا چاروں طرف سے

وہ پیاس کی اب بھیج گھٹا چاروں طرف سے
اے میرے خدا میرے خدا چاروں طرف سے


میں نے تو پکارا تھا کسی ایک ہی جانب
کیوں لوٹ کے آئی ہے صدا چاروں طرف سے


گرنا ہے مگر یوں تو نہیں تم سے گروں گا
یلغار کرو مجھ پہ ذرا چاروں طرف سے


ہو جاتی ہے جب ریت پہ تصویر مکمل
آ جاتی ہے پھر تیز ہوا چاروں طرف سے


آنے پہ کوئی قید نہ جانے پہ ہے بندش
اس دل کو رکھا میں نے کھلا چاروں طرف سے


بیمار ترا کل ترے پہلو سے اٹھا تو
لگتا تھا کہ برسی ہے شفا چاروں طرف سے


سجادؔ نکل جاؤں اگر حد زمیں سے
تیار ہے کھانے کو خلا چاروں طرف سے