ساحل احمد کی غزل

    کیا پرندے لوٹ کر آئے نہیں

    کیا پرندے لوٹ کر آئے نہیں وہ کسی آواز پر آئے نہیں شام سے ہی فکر گہری ہو گئی شہر سے جب لوگ گھر آئے نہیں سونے سونے ہی کھڑے ہیں سب شجر اب تلک تو کچھ ثمر آئے نہیں اب کے وہ ایسے سفر پر کیا گئے پھر دوبارہ لوٹ کر آئے نہیں اڑ گئے طائر بلاتا میں رہا وہ مری دیوار پر آئے نہیں

    مزید پڑھیے

    اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت

    اس کی آنکھوں میں تھی گہرائی بہت کیوں ستاتی ہے یہ تنہائی بہت ہجر کی سوغات کیا لائی بہت بے تحاشہ یاد بھی آئی بہت پیچ و خم زلفوں کا سارا کھل گیا رات بھر آنکھوں میں لہرائی بہت کیوں چمک اٹھتی ہے بجلی بار بار اے ستم گر لے نہ انگڑائی بہت گھر سے ساحلؔ آ کے لوٹی دھوپ کیا ہو گئی میری تو ...

    مزید پڑھیے

    نوع بہ نوع ایک امڈتا ہوا طوفان تھا میں

    نوع بہ نوع ایک امڈتا ہوا طوفان تھا میں بہتے دریا کے لیے اک یہی پہچان تھا میں میں کسی نقطۂ بے لفظ کا اظہار نہیں ہاں کبھی حرف انا وقت کا عرفان تھا میں دیتی تھی ذوق نظر مجھ کو گنہ کی ترغیب یوں فرشتہ تو نہ تھا ہاں مگر انسان تھا میں ان سے اے دوست مرا یوں کوئی رشتہ تو نہ تھا کیوں پھر ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ تھی سایہ اٹھا کر رکھ دیا

    دھوپ تھی سایہ اٹھا کر رکھ دیا یہ سجا تاروں کا محضر رکھ دیا کل تلک صحرا بسا تھا آنکھ میں اب مگر کس نے سمندر رکھ دیا سرخ رو ہوتی ہے کیسی زندگی دوستوں نے لا کے پتھر رکھ دیا مندمل زخموں کے ٹانکے کھل گئے بے سبب تم نے رلا کر رکھ دیا ثابت و سالم تھا دامن کل تلک تم نے آخر کیوں جلا کر رکھ ...

    مزید پڑھیے

    نقش ڈرے گا جنگل میں

    نقش ڈرے گا جنگل میں سانپ ملے گا جنگل میں وحشی جلتی انگلی سے پیڑ گنے گا جنگل میں ٹوٹ کے سایہ پیڑوں سے رقص کرے گا جنگل میں خود رو پودے آنسو کے پھول کھلے گا جنگل میں چلتا پھرتا سایہ بھی اب نہ ملے گا جنگل میں شیر گپھا سے نکلے گا شور مچے گا جنگل میں نخل مروت کٹتے ہی شہر اگے گا جنگل ...

    مزید پڑھیے

    آئینہ میرا بدل کر لے گیا

    آئینہ میرا بدل کر لے گیا کس لیے مجھ کو سفر پر لے گیا سب سکوں میرا سمندر لے گیا نیند آنکھوں کی چرا کر لے گیا خالی دامن گھر میں آیا اور پھر دھوپ جتنی تھی وہ بھر کر لے گیا میں تعاقب میں رہا جس کے لیے اس کو کوئی گھر سے باہر لے گیا جانے اس کو کیا نظر آیا یہاں باندھ کر میرا ہی وہ گھر لے ...

    مزید پڑھیے

    چیختی گاتی ہوا کا شور تھا

    چیختی گاتی ہوا کا شور تھا جسم تنہا جانے کیا سوچا کیا مکڑیوں نے جب کہیں جالا تنا مکھیوں نے شور برپا کر دیا وہ خوشی کے راستے کا موڑ تھا میں بگولہ بن کے رستہ کھوجتا میں درختوں سے خوشی کا راستہ جنگلوں میں اب چلوں گا پوچھتا اپنے ہاتھوں سے ستارے توڑ کر میں جلاؤں گا گھٹاؤں میں ...

    مزید پڑھیے

    میں لبادہ اوڑھ کر جانے لگا

    میں لبادہ اوڑھ کر جانے لگا پتھروں کی چوٹ پھر کھانے لگا میں چلا تھا پیڑ نے روکا مجھے جب برستی دھوپ میں جانے لگا دشت سارا سو رہا تھا اٹھ گیا اڑ کے طائر جب کہیں جانے لگا پیڑ کی شاخیں وہیں رونے لگیں ابر کا سایہ جہاں چھانے لگا پتھروں نے گیت گایا جن دنوں ان دنوں سے آسماں رونے لگا

    مزید پڑھیے

    آنکھ سے آنسو ٹپکا ہوگا

    آنکھ سے آنسو ٹپکا ہوگا صبح کا تارا ٹوٹا ہوگا پھیل گئی ہے نور کی چادر رخ سے آنچل سرکا ہوگا پھیل گئے ہیں رات کے سائے آنکھ سے کاجل ڈھلکا ہوگا بکھری پتی دیکھ کے گل کی کلیوں نے کیا کیا سوچا ہوگا دیکھ مسافر بھوت نہیں ہے راہ کا پتہ کھڑکا ہوگا عارض گل پہ دیکھ کے شبنم کلیوں نے منہ ...

    مزید پڑھیے