سحر انصاری کے تمام مواد

26 غزل (Ghazal)

    ہاتھ آ سکا ہے سلسلۂ جسم و جاں کہاں

    ہاتھ آ سکا ہے سلسلۂ جسم و جاں کہاں اپنی طلب میں گھوم چکا ہوں کہاں کہاں جس بزم میں گیا طلب سر خوشی لیے مجھ سے ترے خیال نے پوچھا یہاں کہاں میں آج بھی خلا میں ہوں کل بھی خلا میں تھا میرے لیے زمین کہاں آسماں کہاں تو ہے سو اپنے حسن کے باوصف غم نصیب میں ہوں تو میرے ہاتھ میں کون و مکاں ...

    مزید پڑھیے

    اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں

    اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں پھول سے لے کے تا بہ سنگ ہوں میں باد صرصر کی طرح گرم عناں سینۂ ریگ کی امنگ ہوں میں ذرہ ذرہ نے کر دیا حیراں اور حیرانیوں پہ دنگ ہوں میں فتح بھی اک شکست ہی ہوگی آرزوؤں سے محو جنگ ہوں میں کیسے تجھ کو بہا کے لے جاؤں موج ہمسایۂ نہنگ ہوں میں شہر و صحرا کی کچھ ...

    مزید پڑھیے

    پیمانۂ حال ہو گئے ہم

    پیمانۂ حال ہو گئے ہم گردش میں مثال ہو گئے ہم تکمیل کمال ہوتے ہوئے تمہید زوال ہو گئے ہم ہر شخص بنا ہے ناز بردار جب خود پہ وبال ہو گئے ہم دریوزہ گروں کی انجمن میں کشکول سوال ہو گئے ہم آئینۂ کرب لفظ و معنی فرہنگ ملال ہو گئے ہم امکان وجود کے سفر پر نکلے تو محال ہو گئے ہم پہلے تو ...

    مزید پڑھیے

    من کے مندر میں ہے اداسی کیوں

    من کے مندر میں ہے اداسی کیوں نہیں آئی وہ دیو داسی کیوں ابر برسا برس کے کھل بھی گیا رہ گئی پھر زمین پیاسی کیوں اک خوشی کا خیال آتے ہی چھا گئی ذہن پر اداسی کیوں زندگی بے وفا ازل سے ہے پھر بھی لگتی ہے باوفا سی کیوں ایسی فطرت شکار دنیا میں اتنی انسان نا شناسی کیوں کیوں نہیں ایک ...

    مزید پڑھیے

    نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں نہ کسی کے ستم کا خیال کریں

    نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں نہ کسی کے ستم کا خیال کریں ہمیں کون سے رنج ملے ہیں نئے کہ جو دل کے زیاں کا ملال کریں ابھی صرف خیال ہے خواب نما ابھی صرف نظر ہے سراب نما ذرا اور خراب ہو وضع جنوں تو وہ زحمت پرسش حال کریں وہی شہر ہے شہر کے لوگ وہی غم خندہ و سنگ و صلیب وہی یہاں آئے ہیں کون ...

    مزید پڑھیے

تمام

11 نظم (Nazm)

    الاؤ

    ہم اجنبی تھے مسافر تھے خانہ ویراں تھے اور اس الاؤ کے رقصاں حنائی باتوں نے بلا لیا ہمیں اپنے حسیں اشاروں سے تو اس کی روشنیٔ احمریں کی تابش میں خود اپنے آپ کو اک دوسرے سے پہچانا کہ ہم وہ خانہ بدوشان زیست ہیں جن کو ازل سے اپنے ہی جیسے مسافروں کی تلاش کئے ہوئے ہے انہی دشت و در میں سر ...

    مزید پڑھیے

    قابیل کا سایہ

    خدا کے خوف سے اپنے گناہوں پر خجل ہو کر وہ پیہم گریہ کرتا تھا وہ اپنے بھائی کے لاشے پہ پیہم گریہ کرتا تھا لہو آواز دیتا تھا زمیں کی خاک رسوا سے خدا کا عرش کانپ اٹھتا تھا اس فریاد کو سن کر برادر کش سزا پاتے تھے پتھر بن کے جیتے تھے اور ان کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی تھی سینوں میں اور ان ...

    مزید پڑھیے

    حساب شب

    میں اپنے آپ گم صم اداس واماندہ یہ سوچتا ہوں کہ کیا حق ہے مجھ کو جینے کا نہ ماہتاب مرا ہے نہ آفتاب مرا نہ دن کے رنگ مرے ہیں نہ لطف خواب مرا کوئی قریب سے دیکھے تو میرے دامن میں شکایتیں بھی بہت ہیں محبتیں بھی بہت روایتیں بھی بہت ہیں بغاوتیں بھی بہت پھر اک سوال ہے بیدار شب کے آنگن ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھی

    کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوا کرتا ہے جیسے لفظ کے سارے رشتے بے معنی ہیں لگتی ہے کانوں کو اکثر خاموشی آواز کے سناٹے سے بہتر سادہ کاغذ لکھے ہوئے کاغذ سے اچھا لگتا ہے خوابیدہ لفظوں کو آخر جاگتی آنکھوں کی تصویر دکھائیں کیسے پلکوں پر آواز سجائیں کیسے کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے تم میری ...

    مزید پڑھیے

    دوراہا

    (خود کلامی) تم جھوٹ اور سچ کے دوراہے پر تھے گزرتے لمحوں کی آواز نے تم سے پوچھا کیا تم سچ کی راہ پر چل سکتے ہو تم چپ ہی رہے گزرتے لمحوں کی آواز نے تم سے پوچھا کیا تم جھوٹ کی راہ پہ چل سکتے ہو تم چپ ہی رہے اور ''ہاں'' کے سارے لمحے گزر گئے تم جانتے ہو ''ہاں'' کہنے کے تو سارے لمحے گزر گئے اب ...

    مزید پڑھیے

تمام