ہاتھ آ سکا ہے سلسلۂ جسم و جاں کہاں
ہاتھ آ سکا ہے سلسلۂ جسم و جاں کہاں اپنی طلب میں گھوم چکا ہوں کہاں کہاں جس بزم میں گیا طلب سر خوشی لیے مجھ سے ترے خیال نے پوچھا یہاں کہاں میں آج بھی خلا میں ہوں کل بھی خلا میں تھا میرے لیے زمین کہاں آسماں کہاں تو ہے سو اپنے حسن کے باوصف غم نصیب میں ہوں تو میرے ہاتھ میں کون و مکاں ...