Sagheer Malal

صغیر ملال

صغیر ملال کی غزل

    برائے نام سہی سائباں ضروری ہے

    برائے نام سہی سائباں ضروری ہے زمین کے لیے اک آسماں ضروری ہے تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پر ہر آدمی کا کوئی راز داں ضروری ہے ضرورت اس کی ہمیں ہے مگر یہ دھیان رہے کہاں وہ غیر ضروری کہاں ضروری ہے کہیں پہ نام ہی پہچان کے لیے ہے بہت کہیں پہ یوں ہے کہ کوئی نشاں ضروری ہے کہانیوں ...

    مزید پڑھیے

    فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا

    فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا پھر اس کے بعد سفر سب ستارہ وار کیا بس اتنی دیر میں اعداد ہو گئے تبدیل کہ جتنی دیر میں ہم نے انہیں شمار کیا کبھی کبھی لگی ایسی زمین کی حالت کہ جیسے اس کو زمانے نے سنگسار کیا جہان کہنہ ازل سے تھا یوں تو گرد آلود کچھ ہم نے خاک اڑا کر یہاں غبار کیا بشر ...

    مزید پڑھیے

    خاک میں ملتی ہیں کیسے بستیاں معلوم ہو

    خاک میں ملتی ہیں کیسے بستیاں معلوم ہو آنے والوں کو ہماری داستاں معلوم ہو جو ادھر کا اب نہیں ہے وہ کدھر کا ہو گیا جو یہاں معدوم ہو جائے کہاں معلوم ہو مرحلہ تسخیر کرنے کا اسے آسان ہے گر تجھے اپنا بدن سارا جہاں معلوم ہو جو الگ ہو کر چلے سب گھومتے ہیں اس کے گرد یوں جدا ہو کر گزر کہ ...

    مزید پڑھیے

    نکل گئے تھے جو صحرا میں اپنے اتنی دور (ردیف .. ے)

    نکل گئے تھے جو صحرا میں اپنے اتنی دور وہ لوگ کون سے سورج میں جل رہے ہوں گے عدم کی نیند میں سوئے ہوئے کہاں ہیں وہ اب جو کل وجود کی آنکھوں کو مل رہے ہوں گے ملے نہ ہم کو جواب اپنے جن سوالوں کے کسی زمانے میں ان کے بھی حل رہے ہوں گے بس اس خیال سے دیکھا تمام لوگوں کو جو آج ایسے ہیں کیسے ...

    مزید پڑھیے

    ایک رہنے سے یہاں وہ ماورا کیسے ہوا

    ایک رہنے سے یہاں وہ ماورا کیسے ہوا سب سے پہلا آدمی خود سے جدا کیسے ہوا تیرے بارے میں اگر خاموش ہوں میں آج تک پھر ترے حق میں کسی کا فیصلہ کیسے ہوا ابتدا میں کیسے صحرا کی صدا سمجھی گئی آخرش سارا زمانہ ہم نوا کیسے ہوا چند ہی تھے لوگ جن کے سامنے کی بات تھی میں نے ان لوگوں سے خود جا ...

    مزید پڑھیے

    کیوں ہر عروج کو یہاں آخر زوال ہے

    کیوں ہر عروج کو یہاں آخر زوال ہے سوچیں اگر تو صرف یہی اک سوال ہے بالائے سر فلک ہے تو زیر قدم ہے خاک اس بے نیاز کو مرا کتنا خیال ہے لمحہ یہی جو اس گھڑی عالم پہ ہے محیط ہونے کی اس جہان میں تنہا مثال ہے آخر ہوئی شکست تو اپنی زمین پر اپنے بدن سے میرا نکلنا محال ہے سورج ہے روشنی کی ...

    مزید پڑھیے

    کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے

    کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    پھر اس کے بعد راستہ ہموار ہو گیا

    پھر اس کے بعد راستہ ہموار ہو گیا جب خاک سے خیال نمودار ہو گیا اک داستان گو ہوا ایسا کہ اپنے بعد ساری کہانیوں کا وہ کردار ہو گیا سایہ نہ دے سکا جسے دیوار کا وجود اس کا وجود نقش بہ دیوار ہو گیا آنکھیں بلند ہوتے ہی محدود ہو گئیں نظریں جھکا کے دیکھا تو دیدار ہو گیا وہ دوسرے دیار کی ...

    مزید پڑھیے

    خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے

    خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں اب کوئی چیز نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے اک تسلسل کی روایت ہے ہوا سے منسوب خاک پر اس کا امیں آب رواں ہوتا ہے سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں ہو تو سکتے ہیں مگر ایسا کہاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2