Sagheer Malal

صغیر ملال

صغیر ملال کی غزل

    جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی

    جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی اور آخر مرے رستے میں بھی آیا ہے وہی یہ الگ بات کہ ہم رات کو ہی دیکھ سکیں ورنہ دن کو بھی ستاروں کا تماشا ہے وہی اپنے موسم میں پسند آیا ہے کوئی چہرہ ورنہ موسم تو بدلتے رہے چہرہ ہے وہی ایک لمحے میں زمانہ ہوا تخلیق ملالؔ وہی لمحہ ہے یہاں اور زمانہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ حقیقت میں ایک لمحہ تھا

    وہ حقیقت میں ایک لمحہ تھا جس کا دوران یہ زمانہ تھا میری نظروں سے گر پڑی ہے زمیں کیوں بلندی نے اس کو دیکھا تھا کیسی پیوند کار ہے فطرت منتشر ہو کے بھی میں یکجا تھا روشنی ہے کسی کے ہونے سے ورنہ بنیاد تو اندھیرا تھا جب بھی دیکھا نیا لگا مجھ کو کیا تماشا جہان کہنہ تھا اس نے محدود ...

    مزید پڑھیے

    جسے سناؤ گے پہلے ہی سن چکا ہوگا

    جسے سناؤ گے پہلے ہی سن چکا ہوگا مجھے یقین ہے یہ ایسا واقعہ ہوگا یہاں تو اب بھی ہیں تنہائیاں جواب طلب وہ پہلے پہل یہاں کس طرح رہا ہوگا جو آج تک ہوا کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے کوئی بتائے یہاں اس کے بعد کیا ہوگا خلا میں پائیں گے تارا جو دور تک نکلیں پھر اس کے بعد بہت دور تک خلا ...

    مزید پڑھیے

    کردار کہہ رہے ہیں کچھ اپنی زبان میں

    کردار کہہ رہے ہیں کچھ اپنی زبان میں کتنی کہانیاں ہیں اسی داستان میں جب آج تک نہ بات مکمل ہوئی کوئی یہ لوگ بولنے لگے کیوں درمیان میں برسوں میں کٹ رہا ہے یہاں عرصۂ حیات صدیاں گزر رہی ہیں کہیں ایک آن میں اس دن کے بعد سوچنا محدود کر دیا ایسا خیال ایک دن آیا تھا دھیان میں ہونے کی ...

    مزید پڑھیے

    جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے (ردیف .. ا)

    جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے پھر دور دیکھتی ہوئی آنکھوں سے بھی ہو کیا ہاتھوں سے چھو کے پہلے اجالا کریں تلاش جب روشنی نہ ہو تو نگاہوں سے بھی ہو کیا حیرت زدہ سے رہتے ہیں اپنے مدار پر اس کے علاوہ چاند ستاروں سے بھی ہو کیا پاگل نہ ہو تو اور یہ پانی بھی کیا کرے وحشی نہ ہوں تو اور ...

    مزید پڑھیے

    میں ڈھونڈ لوں اگر اس کا کوئی نشاں دیکھوں

    میں ڈھونڈ لوں اگر اس کا کوئی نشاں دیکھوں بلند ہوتا فضا میں کہیں دھواں دیکھوں عبث ہے سوچنا لا انتہا کے بارے میں نگاہیں کیوں نہ جھکا لوں جو آسماں دیکھوں بہت قدیم ہے متروک تو نہیں لیکن ہوا جو ریت پہ لکھتی ہے وہ زباں دیکھوں ہے ایک عمر سے خواہش کہ دور جا کے کہیں میں خود کو اجنبی ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام (ردیف .. ے)

    نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام ہم ایک سی تو کہانی سدا نہیں کہتے جدھر پہنچنا ہے آغاز بھی وہیں سے ہوا سفر سمجھتے ہیں اس کو سزا نہیں کہتے نیا شعور نئے استعارے لاتا ہے ازل سے لوگ خدا کو خدا نہیں کہتے جو گیت چنتے ہیں خاموشیوں کے صحرا سے وہ لب کشاؤں کو راز آشنا نہیں کہتے فضا ...

    مزید پڑھیے

    الگ ہیں ہم کہ جدا اپنی رہگزر میں ہیں

    الگ ہیں ہم کہ جدا اپنی رہگزر میں ہیں وگرنہ لوگ تو سارے اسی سفر میں ہیں ہماری جست نے معزول کر دیا ہم کو ہم اپنی وسعتوں میں اپنے بام و در میں ہیں یہاں سے ان کے گزرنے کا ایک موسم ہے یہ لوگ رہتے مگر کون سے نگر میں ہیں جو در بدر ہو وہ کیسے سنبھال سکتا ہے تری امانتیں جتنی ہیں میرے گھر ...

    مزید پڑھیے

    رات اندر اتر کے دیکھا ہے

    رات اندر اتر کے دیکھا ہے کتنا حیران کن تماشا ہے ایک لمحے کو سوچنے والا ایک عرصے کے بعد بولا ہے میرے بارے میں جو سنا تو نے میری باتوں کا ایک حصہ ہے شہر والوں کو کیا خبر کہ کوئی کون سے موسموں میں زندہ ہے جا بسی دور بھائی کی اولاد اب وہی دوسرا قبیلہ ہے بانٹ لیں گے نئے گھروں ...

    مزید پڑھیے

    کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے

    کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے جبکہ ہر شخص یہاں آبلہ پا ہوتا ہے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے سوچنے والوں کے سینے میں خلا ہوتا ہے لوگ اس شہر کو خوش حال سمجھ لیتے ہیں رات کے وقت بھی جو جاگ رہا ہوتا ہے گھر کے بارے میں یہی جان سکا ہوں اب تک جب بھی لوٹو کوئی دروازہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2