Saghar Azmi

ساغرؔ اعظمی

ساغرؔ اعظمی کی غزل

    سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا

    سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا اب کے فساد دل سے مرے ڈر بھی لے گیا خیرات بٹ رہی تھی در شہریار پر سنتے ہیں اب کے بھیک سکندر بھی لے گیا ماں نے بچا کے رکھا تھا بیٹی کے واسطے بیٹا ہوا جواں تو یہ زیور بھی لے گیا آیا تھا ہر کسی کو محبت سے جیتنے کچھ زخم اپنے سینے کا ساغرؔ بھی لے گیا

    مزید پڑھیے

    گلشن کو بہاروں نے اس طرح نوازا ہے

    گلشن کو بہاروں نے اس طرح نوازا ہے ہر شاخ کے کاندھے پر کلیوں کا جنازہ ہے کس طرح بھلائیں ہم اس شہر کے ہنگامے ہر درد ابھی باقی ہے ہر زخم ابھی تازہ ہے مستی بھی امیدیں بھی حسرت بھی اداسی بھی مجھ کو تری آنکھوں نے ہر طرح نوازا ہے مٹی کی طرح اک دن اڑ جائے گا راہوں سے سب شور مچاتے ہیں جب ...

    مزید پڑھیے

    پیاس صدیوں کی ہے لمحوں میں بجھانا چاہے

    پیاس صدیوں کی ہے لمحوں میں بجھانا چاہے اک زمانہ تری آنکھوں میں سمانا چاہے ایسی لہروں میں ندی پار کی حسرت کس کو اب تو جو آئے یہاں ڈوب ہی جانا چاہے آج بکنے سر بازار میں خود آیا ہوں کیوں مجھے کوئی خریدار بنانا چاہے مجھ میں اور تجھ میں ہے یہ فرق تو اب بھی قائم تو مجھے چاہے مگر تجھ ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں سے بدن ان کے کانٹے ہیں زبانوں میں

    پھولوں سے بدن ان کے کانٹے ہیں زبانوں میں شیشے کے ہیں دروازے پتھر کی دکانوں میں کشمیر کی وادی میں بے پردہ جو نکلے ہو کیا آگ لگاؤ گے برفیلی چٹانوں میں بس ایک ہی ٹھوکر سے گر جائیں گی دیواریں آہستہ ذرا چلیے شیشے کے مکانوں میں اللہ رے مجبوری بکنے کے لیے اب بھی سامان تبسم ہے اشکوں ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ میں غم کی مرے ساتھ جو آیا ہوگا

    دھوپ میں غم کی مرے ساتھ جو آیا ہوگا وہ کوئی اور نہیں میرا ہی سایا ہوگا یہ جو دیوار پہ کچھ نقش ہیں دھندلے دھندلے اس نے لکھ لکھ کے مرا نام مٹایا ہوگا جن کے ہونٹوں پہ تبسم ہے مگر آنکھ ہے نم اس نے غم اپنا زمانے سے چھپایا ہوگا بے تعلق سی فضا ہوگی رہ غربت میں کوئی اپنا ہی ملے گا نہ ...

    مزید پڑھیے

    ایسی نہیں ہے بات کہ قد اپنے گھٹ گئے

    ایسی نہیں ہے بات کہ قد اپنے گھٹ گئے چادر کو اپنی دیکھ کے ہم خود سمٹ گئے جب ہاتھ میں قلم تھا تو الفاظ ہی نہ تھے اب لفظ مل گئے تو مرے ہاتھ کٹ گئے صندل کا میں درخت نہیں تھا تو کس لیے جتنے تھے غم کے ناگ مجھی سے لپٹ گئے بیٹھے تھے جب تو سارے پرندے تھے ساتھ ساتھ اڑتے ہی شاخ سے کئی سمتوں ...

    مزید پڑھیے

    رات کے اندھیروں کو روشنی وہ کیا دے گا

    رات کے اندھیروں کو روشنی وہ کیا دے گا اک دیا جلائے گا سو دیے بجھا دے گا مدتیں ہوئی مجھ سے گھر چھڑا دیا میرا کیا زمانہ اب تیرا ساتھ بھی چھڑا دے گا سب کے نقلی چہرے ہیں سب کا ایک عالم ہے کوئی اس زمانے میں کس کو آئنا دے گا میں ابھی تو مجرم ہوں آپ اپنا قاتل ہوں کانپ اٹھے گا منصف بھی جب ...

    مزید پڑھیے

    وہ آج بھی قریب سے کچھ کہہ کے ہٹ گئے

    وہ آج بھی قریب سے کچھ کہہ کے ہٹ گئے دنیا سمجھ رہی تھی مرے دن پلٹ گئے جو تشنہ لب نہ تھے وہ تھے محفل میں غرق جام خالی تھے جتنے جام وہ پیاسوں میں بٹ گئے صندل کا میں درخت نہیں تھا تو کس لیے جتنے تھے غم کے ناگ مجھی سے لپٹ گئے جب ہاتھ میں قلم تھا تو الفاظ ہی نہ تھے جب لفظ مل گئے تو مرے ...

    مزید پڑھیے