Sagar Huzoor puri

ساگر حضورپوری

ساگر حضورپوری کی غزل

    دور پاس ہو کر بھی

    دور پاس ہو کر بھی عام خاص ہو کر بھی پوجتے رہے پتھر رب شناس ہو کر بھی ہے قبول ہر آمد آ اداس ہو کر بھی گھونسلے نہیں بچتے اب بے ماس ہو کر بھی خشک ہو نہیں سکتے ہونٹ پیاس ہو کر بھی زخم چھو نہیں پائی رت کپاس ہو کر بھی بد گماں نہیں ساگرؔ بد حواس ہو کر بھی

    مزید پڑھیے

    یہ خوش فہمی بچاؤ کے لیے ہے

    یہ خوش فہمی بچاؤ کے لیے ہے کہ دریا بس بہاؤ کے لیے ہے چرانے دوں کسی سورج کو کیسے یہ شبنم جو الاؤ کے لئے ہے تری تالی بھی کوئی فتنہ ہوگی تری تھپکی بھی تاؤ کے لیے ہے بے مرہم ہی رہو کہ یہ نمک تو ہمارے اپنے گھاؤ کے لئے ہے دھڑکنا بھی ضروری نئیں ہے اس کا نہ ہی یہ دل لگاؤ کے لیے ہے ابھی ...

    مزید پڑھیے