دور پاس ہو کر بھی
دور پاس ہو کر بھی عام خاص ہو کر بھی پوجتے رہے پتھر رب شناس ہو کر بھی ہے قبول ہر آمد آ اداس ہو کر بھی گھونسلے نہیں بچتے اب بے ماس ہو کر بھی خشک ہو نہیں سکتے ہونٹ پیاس ہو کر بھی زخم چھو نہیں پائی رت کپاس ہو کر بھی بد گماں نہیں ساگرؔ بد حواس ہو کر بھی