Saeed Shariq

سعید شارق

  • 1993

سعید شارق کی غزل

    دیکھ پائے تو کرے کوئی پذیرائی بھی

    دیکھ پائے تو کرے کوئی پذیرائی بھی میں تماشا بھی ہوں اور اس کا تماشائی بھی کون سمجھے مری آبادی و ویرانی کو جھیل کی سطح پہ کشتی بھی ہے اور کائی بھی قفس وصل میں سب شور ہمارا تو نہیں پھڑپھڑاتا ہے بہت طائر تنہائی بھی اب اداسی کسی دیرینہ نشے کے مانند میری کمزوری بھی ہے اور توانائی ...

    مزید پڑھیے

    سانس کی دھار ذرا گھستی ذرا کاٹتی ہے

    سانس کی دھار ذرا گھستی ذرا کاٹتی ہے کیا درانتی ہے کہ خود فصل فنا کاٹتی ہے ایک تصویر جو دیوار سے الجھی تھی کبھی اب مری نظروں میں رہنے کی سزا کاٹتی ہے تیری سرگوشی سے کٹ جاتا ہے یوں سنگ سکوت جس طرح حبس کے پتھر کو ہوا کاٹتی ہے قطع کرتا ہے مرے حلقۂ ویرانی کو نیند جو موڑ پس خواب سرا ...

    مزید پڑھیے

    گزر نہ جائے سماعت کے سرد خانوں سے

    گزر نہ جائے سماعت کے سرد خانوں سے یہ بازگشت جو چپکی ہوئی ہے کانوں سے کھرا نہیں تھا مگر ایسا رائیگاں بھی نہ تھا وہ سکہ ڈھونڈ کے اب لاؤں کن خزانوں سے یہ چشم ابر کا پانی یہ نخل مہر کے پات اتر رہا ہے مرا رزق آسمانوں سے جو در کھلے ہیں کبھی بند کیوں نہیں ہوتے یہ پوچھتا ہی کہاں ہے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کشت دیار صبح سے تارے اگاؤں میں

    کشت دیار صبح سے تارے اگاؤں میں جی چاہتا ہے نت نئے منظر دکھاؤں میں وہ شخص چیختا ہوا انبوہ بن چکا کس کس کو بولنے دوں کسے چپ کراؤں میں اب تو ہنسی بھی ختم ہے افسردگی بھی ختم لب بستۂ ازل تجھے کتنا ہنساؤں میں اک خواب مثل اشک نکل آئے چشم سے دروازۂ گماں جو کبھی کھٹکھٹاؤں میں تو آ ...

    مزید پڑھیے

    عجب موجودگی ہے جو کمی پر مشتمل ہے

    عجب موجودگی ہے جو کمی پر مشتمل ہے کسی کا شور میری خامشی پر مشتمل ہے اندھیری صبح ویراں رات یا شام فسردہ مرا ہر لمحہ ان میں سے کسی پر مشتمل ہے نہیں مل پاتی کوئی بھی ہنسی میری ہنسی میں یہ واحد رنج ہے جو رنج ہی پر مشتمل ہے چمک اٹھتا ہے اک بھولا ہوا چہرہ اچانک نہ جانے تیرگی کس روشنی ...

    مزید پڑھیے