دیکھ پائے تو کرے کوئی پذیرائی بھی
دیکھ پائے تو کرے کوئی پذیرائی بھی میں تماشا بھی ہوں اور اس کا تماشائی بھی کون سمجھے مری آبادی و ویرانی کو جھیل کی سطح پہ کشتی بھی ہے اور کائی بھی قفس وصل میں سب شور ہمارا تو نہیں پھڑپھڑاتا ہے بہت طائر تنہائی بھی اب اداسی کسی دیرینہ نشے کے مانند میری کمزوری بھی ہے اور توانائی ...