Sadique Indori

صادق اندوری

صادق اندوری کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    ایک اک لمحہ مجھے زیست سے بے زاری ہے

    ایک اک لمحہ مجھے زیست سے بے زاری ہے میری ہر سانس سلگتی ہوئی چنگاری ہے کیا ہی اوراق مصور ہیں کتاب دل کے خون ارماں سے ہر اک صفحے پہ گل کاری ہے زخم ہی زخم ہیں آنکھوں سے لگا کر دل تک سوچ میں ہوں کہ یہ کس قسم کی دل داری ہے یہ سمٹتے ہوئے سائے یہ لرزتے در و بام اک نئی صبح کے اعلان کی ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے

    یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے جو میرے ساتھ چلے تھے وہ ساتھ چھوڑ گئے وہ آئنہ جنہیں ہم سب عزیز رکھتے تھے وہ پھینکے وقت نے پتھر کہ توڑ پھوڑ گئے ہمارے بھیگے ہوئے دامنوں کی شان تو دیکھ فلک سے آئے ملک اور گنہ نچوڑ گئے بپھرتی موجوں کو کشتی نے روند ڈالا ہے خوشا وہ عزم کہ طوفاں کا ...

    مزید پڑھیے

    یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا

    یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا جو آشنا تھا کبھی آج اجنبی سا لگا وہ ایک سایہ جو بے حس تھا مردہ کی مانند قریب آیا تو اک عکس زندگی سا لگا خود اپنی لاش لیے پھر رہا تھا کاندھوں پر وہ آدمی تو نہ تھا پھر بھی آدمی سا لگا وہ اک وجود جو پالے ہوئے تھا سانپوں کو نظر کی زد میں جو آیا تو ...

    مزید پڑھیے

    دل کو پیہم درد سے دو چار رہنے دیجیے

    دل کو پیہم درد سے دو چار رہنے دیجیے کچھ تو قائم عشق کا معیار رہنے دیجیے دل کی دنیا غم سراپا غم کی دنیا کیا کہوں کائنات دل کو غم آثار رہنے دیجیے کس طرف جائے غریب ادبار کا مارا ہوا اس مسافر کو پس دیوار رہنے دیجیے آ رہی ہے ساز دل کے تار میں لرزش ابھی اپنی نظروں کو شریک کار رہنے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی

    زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی ایک تنویر حیات آج ابھرنے سے رہی میں پیمبر نہیں انساں ہوں خطا کار انساں عرش سے کوئی وحی مجھ پر اترنے سے رہی میں نے کر رکھا ہے محصور چمن کی حد تک شاخ در شاخ کوئی برق گزرنے سے رہی لاکھ افکار و حوادث مجھے روندیں بڑھ کر جو وفا مجھ کو ملی ہے کبھی ...

    مزید پڑھیے

تمام