صبیحہ صبا کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    نہیں جانے ہے وہ حرف ستائش برملا کہنا

    نہیں جانے ہے وہ حرف ستائش برملا کہنا مگر نظروں ہی نظروں میں وہ اس کا واہ وا کہنا سر محفل کرے رسوا مرا بے ساختہ کہنا مرے فن کار یہ نازک خیالی واہ کیا کہنا مرے ناراض شانوں کو تھپک کر بارہا کہنا چلو چھوڑو گلے شکوے کبھی مانو مرا کہنا کوئی مصروفیت ہوگی وگرنہ مصلحت ہوگی نہ اس پیماں ...

    مزید پڑھیے

    اس کی شباہت کسی شمس و قمر میں نہیں

    اس کی شباہت کسی شمس و قمر میں نہیں ایک اسے دیکھ کر کوئی نظر میں نہیں قاصد زہرہ مقام کہہ اسے میرا سلام جس کا نشیمن مری راہ گزر میں نہیں کیا کشش جذب دل تجھ میں کمی ہے کہ وہ محور سیارگاں تیرے اثر میں نہیں چشم ستارا شمار کشتہ صدا انتظار دید کی کوئی نوید نجم سحر میں نہیں ہم جو ...

    مزید پڑھیے

    یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے

    یہ سیل اشک مجھے گفتگو کی تاب تو دے جو یہ کہوں کہ وفا کا مری حساب تو دے بھری بہار رتوں میں بھی خار لے آئی یہ انتظار کی ٹہنی کبھی گلاب تو دے نہیں نہیں میں وفا سے کنارہ کش تو نہیں وہ دے رہا ہے مجھے ہجر کا عذاب تو دے یہ خامشی تو قیامت کی جان لیوا ہے وہ دل دکھائے مگر بات کا جواب تو ...

    مزید پڑھیے

    بظاہر رونقوں میں بزم آرائی میں جیتے ہیں

    بظاہر رونقوں میں بزم آرائی میں جیتے ہیں حقیقت ہے کہ ہم تنہا ہیں تنہائی میں جیتے ہیں سجا کر چار سو رنگیں محل تیرے خیالوں کے تری یادوں کی رعنائی میں زیبائی میں جیتے ہیں خوشا ہم امتحان دشت گردی کے نتیجے میں بصد اعجاز مشق آبلہ پائی میں جیتے ہیں ستم گاروں نے آئین وفا منسوخ کر ...

    مزید پڑھیے

    درست ہے کہ یہ دن رائیگاں نہیں گزرے

    درست ہے کہ یہ دن رائیگاں نہیں گزرے مگر سکوں سے تو اے جان جاں نہیں گزرے مزاج شہر جنوں اب یہ برہمی کیسی کس آگ سے ترے پیر و جواں نہیں گزرے نظر سے دور سہی پھر بھی کشتگان وفا وہاں سے کم تو یہ صدمے یہاں نہیں گزرے مروتاً وہ مری بات پوچھ کر چپ ہیں وگرنہ کب مرے شکوے گراں نہیں ...

    مزید پڑھیے