ناؤ کاغذ کی سہی کچھ تو نظر سے گزرے
ناؤ کاغذ کی سہی کچھ تو نظر سے گزرے اس سے پہلے کہ یہ پانی مرے سر سے گزرے پھر سماعت کو عطا کر جرس گل کی صدا قافلہ پھر کوئی اس راہ گزر سے گزرے کوئی دستک نہ صدا کوئی تمنا نہ طلب ہم کہ درویش تھے یوں بھی ترے در سے گزرے غیرت عشق تو کہتی ہے کہ اب آنکھ نہ کھول اس کے بعد اب نہ کوئی اور ادھر ...